آج جب میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کے یوم وفات کے موقع پر ان کی یادکو تازہ کرنے کے لئے یہ سطور رقم کررہا ہوں تو مجھے ان کی قومی و ملی خدمات رہ رہ کر یاد آ رہی ہیں۔مولاناظفر علی خان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔وہ بیک وقت متحرک سیاستدان، نڈر مقرر،باکمال صحافی اور صاحب طرز ادیب اور شاعر تھے۔ان کے سیاسی، صحافتی اور ادبی کارناموں پر کئی اچھی کتابیں اور تحقیقی و تنقیدی مقالات بھی لکھے گئے ہیں۔ مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مولانا ظفر علی خان پر لکھا۔البتہ خود مولانا نے انگریزی اور ا±ردو میں جو کچھ لکھا، اس کا کچھ حصہ ابھی تک مرتب نہیں ہوسکا۔ پروفیسر خالد ہمایوں کے مطابق ممتاز مورخ اور ماہر تعلیم پروفیسر احمد سعید کئی سال سے یہ خلا پ±ر کرنے میں مصروف ہیں اور اس معاملے میں ظفر علی خان ٹرسٹ ان کا معاون ومددگار ہے۔مولانا کی بے شمار ا±ردو تحریریں جو ابھی تک مختلف اخبارات و رسائل میں بکھری پڑی تھیں، پروفیسر احمد سعید نے انہیں بھی ”نگار شاتِ ظفر علی خان“ کے عنوان سے مرتب کردیا ہے۔
چند سال پہلے ٹرسٹ نے انہیں مولانا کے اخبار روزنامہ ”زمیندار“ کے اداریے مرتب کرنے کا کام تفویض کیا۔ چنانچہ 1923ءاور 1924ءکی ادارتی تحریریں مرتب ہوچکی ہیں۔1922ءکا کام بھی مکمل ہو گیا ہے۔دو سال کے اداریے چھ جلدوں کی صورت میں شائع ہوگئے ہیں۔ ہر جلد کے آغاز میں فاضل مرتب نے اس دور کے اداریوں کے پس منظر کے حالات و واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔اس سے مندرجات کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ ہر جلد کے اختتام پر اشاریہ (انڈکس) دیا گیا ہے، اس سے اس تحقیقی کام کی افادیت دو چند ہوگئی ہے۔ کوئی بھی محقق اور مو¿رخ ان اداریوں سے استفادہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ نے ان اداریوں کو مرتب کروا کے ایک اہم علمی کارنامہ انجام دیا ہے۔اور یہ کام ہنوز جاری و ساری ہے جس پر مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب خالد محمود بجا طور پر خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
مولانا ظفر علی خان نے اپنے والد مولوی سراج الدین خان کی وفات کے بعدجب 1908 میں ”زمیندار“ کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالیں تو گویا ایک خارزار میں قدم رکھ دیا تھا۔ انگریز کی غلامی کا دور تھا۔ حکومت نے اظہار خیال پر بے شمار پابندیاں لگارکھی تھیں۔جو صاحب قلم ان پابندیوں کو ملحوظ نہ رکھتا اور حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا تو اس کا نہ صرف اخبار یا رسالہ بند ہوجاتا تھا بلکہ خود اسے قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑتی تھیں اور جرمانہ بھی ہوتا تھا۔مولانا اور انکے اخبار کو بھی ان سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ کئی دفعہ اخبار کی اشاعت پر پابندی لگی، ضمانت ضبط ہوئی اور مولانا کو جیل کی ہوا کھانا پڑی، مگر آفرین ہے مولانا پر کہ کسی قدم پر بھی برطانوی حکومت سے مفاہمت پر تیار نہ ہوئے اور ”زمیندار“ کی اشاعت زیادہ دیر ر±ک نہ سکی۔مولانا کےچاہنے والے سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے، جوں ہی ضمانت ضبط ہوتی، وہ فوراً مالی تعاون پر تیار ہوجاتے اور اشاعت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتاتھا۔
”زمیندار“اخبار ایک تحریک کی صورت میں مسلمانوں کا ترجمان تھا اور اس کی تحریریں مسلمانوں کے فکری مزاج کو جِلا بخشتی تھیں۔ رولٹ ایکٹ کے نفاذ، جلیانوالہ باغ کے سانحے اور کشمیر میں ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد آزادی کو جِلا بخشنے میں زمیندار کے کردار کو کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔مولانا ظفر علی خاں کے اخبار نے اپنے وقت میں سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسائل ومعاملات کی عکاسی اور سماج کے ایک بڑے طبقے میں ان مسائل کے حوالے سے رائے سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ برطانوی حکمرانوں سے براہ راست ٹکراؤ میں یقین رکھتے تھے۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں گورنر پنجاب سرمائیکل اوڈوائر کے دور میں انھیں پانچ سال کی قید بامشقت کی سزا بھی سنائی گئی جو بعد میں نظر بندی میں تبدیل ہوگئی۔ تحریک خلافت سے بھی مولانا کی وابستگی بہت مضبوط تھی۔مولانا کی شاعری بھی ان کی اسی سیاسی اور سماجی جدوجہد کا ایک ذریعہ رہی۔ ان کی بیشتر نظمیں وقتی تقاضوں کے پیش نظر تخلیق کی گئیں۔
مولانا ظفر علی خاں کے دل میں صرف برصغیر کے مسلمانوں ہی کا درد نہ تھا بلکہ دنیا کے جس حصے میں بھی مسلمانوں پر آفت آتی مولانا تڑپ اٹھتے۔ انہوں نے دامے درمے سخنے قدمے ان کی مدد کی۔ چندہ ہی نہیں کندھا بھی دیا۔ عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو مولانا نے ترکش ریلیف فنڈ قائم کیا۔
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں انگریزوں اور ہندوؤں سے لڑتے لڑتے اور تحریک آزادی کے لیے قوم کو تیار کرتے کرتے 27 نومبر 1956ئ کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور اپنے آبائی گاو¿ں کرم آباد وزیر آباد میں دفن ہیں۔ وہ اپنے پیچھے صحافیوں کے لیے تربیت کا ایک ایسا معیار چھوڑ گئے جو صدیوں تک مشعل راہ رہے گا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
٭....٭....٭
مولانا ظفر علی خان اہل صحافت کیلئے مشعل راہ
Nov 27, 2023