آج ہمارا مقصد 1965ءکی جنگ کا جائزہ لینا ہے۔ اِس جنگ کی بنیاد ”رن کچھ“کی وہ جھڑپیں تھیں جن میں بھارتی فوج کو ہزیمت ا±ٹھانی پڑی۔اِن جھڑپوں کے وقت صدر پاکستان بمعہ اپنے وزیر خارجہ روس کے دورہ پر تھے۔جب وہ واپس آئے تو انہیں G.H.Qمیں اِس منی جنگ پر بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کے بعد صدر ایوب خان اِس بات سے متفکر ہوئے کہ کہیں تصادم کے دائرے کو غیر ضروری طور پر بڑھا نہ دیا جائے۔ بد قسمتی سے ایسا ہو گیا۔
1965ءمیں فوجی صدر حکمران تھا لیکن وزراءتمام کے تمام سیاسی لیڈر تھے۔ ملکی آئین جیسا بھی تھا کام کر رہا تھا۔ اس دور میں ہمارے وزیر خارجہ بہت فعال، ہر دلعزیز اور مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے۔ عوام اور صدر پاکستان کے پسندیدہ لیڈر تھے۔ کابینہ میں سب سے زیادہ موثر وزیر تھے اور صدر پاکستان کے اس قدر قریب تھے کہ وہ ان کی کوئی بات ٹال نہ سکتے تھے۔ لہٰذا وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری خارجہ نے صدر پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ اگر کشمیر میں گوریلے بھیج کر گوریلا کارروائیاں شروع کی جائیں تو کشمیری مسلمان ہندوستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے نیز یہ کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا۔ اور کشمیر حاصل کرنے کا اس سے بہتر موقع ہو ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے ایک کیبنٹ میٹننگ میں: ”مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایک ”عوامی انقلاب“ نے تمام علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔کشمیر کے عوم اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حریت پسندوں کے بڑے بڑے جھتے بھارت کے جنگی دیوتاو¿ں کے خلاف جدوجہد آزادی میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے جنگ بندی لائن عبور کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان اس موقع پر خاموش تماشائی بنارہا تو تاریخ اِسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔“ (الطاف گوہر: فوجی راج کے پہلے دس سال۔)
یہ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک اور کیبنٹ میٹنگ میں ا±س وقت کے سیکرٹری خارجہ جناب عزیز احمد نے کہا:”بھارت کی پوزیشن اس وقت بہت کمزور ہے اِسے قیادت کے بحران کا سامنا ہے اور کشمیر میں اپنا دفاع کرنا اِس کے لئے ناممکن ہو چکا ہے۔کشمیر کی تمام وادی ایک پ±ر جوش عوامی بغاوت کی لہر کی لپیٹ میں ہے اور اگر مجاہدانہ کارروائی کے ذریعے بھارتی فوجیوں کی توجہ کا ر±خ موڑ دیا جائے اور تربیت یافتہ سپاہی کشمیری حریت پسندوں کی مدد کو پہنچ جائیں تو کشمیر بہت جلد آزاد ہو سکتا ہے۔“(الطاف گوہر: فوجی راج کے پہلے دس سال) جناب وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کی یہ تجویزیں جی ایچ کیو میں زیر بحث لائی گئی لیکن محترم وزیر خارجہ نے صدر پاکستان کو اس طرح شیشے میں ا±تارے رکھا کہ جی ایچ کیو کی مخالفت کے باوجود اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کا حکم دے دیا گیا۔لہٰذا بغیر مناسب تیاری، بغیر منظم منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر بغیر مناسب انٹیلی جنس نیٹ ورک کے فوجی دستے مجاہدین کے نام پر مقبوضہ کشمیر میں دھکیل دیئے گئے۔ وہ وہاں کے جغرافیائی حالات سے واقف تھے نہ زبان سے اور نہ علاقے کے لوگوں سے۔کوئی بھی گوریلا جنگ بغیر مقامی آبادی کے تعاون کے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ لوگ اس تعاون سے بھی یکسر محروم تھے۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ایک مضبوط بارڈر سکیورٹی فورس، بھارتی پولیس ،لوکل ملیشیا کے علاوہ پانچ ڈویژن بھارتی فوج موجود تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس سارے منصوبے کا بھارتیوں کو بھی علم تھا۔ سکیورٹی کا یہ عالم تھا کہ مسلمانوں کے گھروں میں اگر کسی کو چھینک بھی آتی تو بھارتی سکیورٹی کو علم ہو جاتا۔ بھارتی فوج پاکستانی گوریلاو¿ں کو خوش آمدید کہنے کے لئے مکمل طور پر تیار تھی۔ کسی مسلمان فیملی کے لئے ان گوریلاو¿ں کی مدد کرنا ممکن ہی نہ تھا اور نہ کسی نے کی۔ نتیجتاً ًہمارے لوگ مارے گئے۔ پکڑے گئے اور چند لوگ مشکل سے جان بچا کر واپس آئے۔ بارڈر کے نزد یک مسلمان خاندانوں کو محض پاکستان سے تعاون کے شک کی بنیاد پر بھارتی فوج نے مار مار کر برا حال کر دیا۔ ہمارے ہاں سے بھیجے گئے مجاہدین ان کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ نتیجتاً ان مسلمانوں نے اپنی بربادی کا سبب پاکستان کو ٹھہرا یا، اور یہ رد عمل غلط بھی نہ تھا۔ مجاہدین سے ان کا ایک ہی سوال تھا: ”اگر تم ہماری مدد نہیں کر سکتے تھے تو یہاں آئے کیوں؟ ہمیں کیوں تباہ کرایا"۔ پھر بدقسمتی یہیں پرختم نہیں ہوئی بلکہ بھارت نے تین مقامات پر ہماری بین الاقوامی سرحد عبور کر کے حملہ کیا۔جبکہ ہم اپنے وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کی یقین دہانیوں کی وجہ سے پوری طرح اپنے دفاع کے لئے تیار ہی نہ تھے۔ ہمارا پورا ایک آرمڈڈویژن تباہ ہوا۔ سینکڑوں لوگ شہید ہوئے۔ بہت سا قیمتی فوجی سامان ضائع ہوا۔ ہزاروں سویلین بے گھر ہوئے، فصلیں تباہ ہوئیں اور بربادی ان کا مقدر بنی۔ وزیر خارجہ صاحب نے جو یقین دہانی کرائی تھی سب کچھ اس کے الٹ ثابت ہوا۔ (حوالہ اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ کی کتاب(My Version of 1965 India-Pakistan War)
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسی سازش تھی جس کا مقصد پاکستانی فوج کی بین الاقوامی طور پر تضحیک کرانا تھا۔ بہرحال یہ مقصد 1971ءمیں جاکر پورا ہوا۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ جب ضیاءالحق مرحوم مسند حکمرانی پر قابض ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے دفتر خارجہ سے 1965ءکی جنگ کے متعلق تمام فائلیں منگوائیں تا کہ اس سازش کے اصل حقائق جانے جاسکیں۔
آخر کس بناءپر فوج اور صدر پاکستان کو یہ تمام یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں؟ کس مقصد کے تحت فوج اور قوم کو اس جنگ میں دھکیلا گیا تھا۔ اور تو اور کچھ غیر ملکی لوگوں کو کئی دن پہلے سے یہ علم تھا کہ بھارت 6 ستمبر کی صبح کو حملہ کرے گا جب کہ دفتر خارجہ زور و شور سے یقین دلا رہا تھا کہ بھارت ایسی حرکت کبھی نہیں کرے گا۔جب ضیاءالحق نے اس دور کی فائلیں دیکھیں تو جنگ کے متعلق تمام ریکارڈ غائب تھا۔
(جاری ہے۔)