”جاگدیاں دیاں کٹیاں تے ستیاں دے کٹے“


گلزار ملک

 نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے تمام اقدامات عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے ہے۔ ان کے تمام عملی اقدامات سے عوام کی زندگیوں میں بہتری آرہی ہے۔ان کی ایسی تمام خدمات قابل ستائش ہیں جیسے آج کل بڑھتی ہوئی سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے زبردست اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جس پر آپ کی خصوصی ہدایات پر لاہور سمیت پنجاب کے 10 اضلاع میں سموگ کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر سمارٹ لاک ڈاو¿ن کا نفاذ کر دیا گیا۔سمارٹ لاک ڈاو¿ن کے تناظر میں لاہور سمیت پنجاب کے 10 اضلاع میں جمعہ اور ہفتہ کو تعلیمی ادارے بند رہیں گے. ان اضلاع میں لاہور، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ، قصور، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد اور منڈی بہاو¿الدین شامل ہیں. اس سلسلہ میں محکمہ سکول و ہائرایجوکیشن نے چھٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اسی وجہ سے جمعہ اور ہفتہ کو مارکیٹیں تین بجے کھلیں گی جبکہ اتوار کو کاروبار مکمل بند ہوگا. لاہور میں مال روڈ پر اتوار کے روز گاڑیوں کا داخلہ بند ہوگا جبکہ صرف سائیکلنگ کی اجازت ہوگی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی کی خصوصی ہدایات پر غفلت کی لمبی نیند سوئے ہوئے محکمہ واسا لاہور کو بھی بیدار کر دیا ہے یہ بات درست ہے کہ گرد و غبار صعنتی آلودگی ٹریفک کا دھواں سموگ کا باعث بنتے ہیں۔
 دوسری جانب مارکیٹوں کی بندش سے متعلق حکومتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے تاجروں نے کہا کہ حکومت مارکیٹوں کے بجائے سرکاری دفاتر، بینکوں کو بند کروائے، مارکیٹیں 3 بجے کھولنے سے تاجربرادری کو بڑا نقصان ہوگا۔ تاجر برادری کا کہنا تھا کہ حکومت جمعہ کو مارکیٹیں 3 بجے کھولنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے
 ادھر لاہور کو سموگ سے نجات نہ مل سکی. صوبائی دارالحکومت فضائی آلودگی کے تناسب سے ا?ج بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
 بہرحال ایسے حالات میں ہم تو یہ کہیں گے کہ سب سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے اور سموگ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے محکمہ واسا، محکمہ ماحولیات اور محکمہ پولیس کا قبلہ درست کرنا ہوگا یہاں پر پنجابی کا ایک بہت ہی مشہور محاورہ ہے کہ ”جاگدیاں دیاں کٹیاں تے ستیاں دے کٹے“یہاں پر اس محاورے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ محکمہ محولیات اور محکمہ واسا دونوں اپنے کام کے حوالے سے لمبی نیند سو رہے ہیں یہ دونوں محکمہ جات کا عملہ جنہیں بار بار شکایت کی جاتی ہے مگر ان لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کسی بھی شہری کی شکایت پر عمل درآمد نہیں ہوتا محکمہ ماحولیات نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ ان علاقوں کا وزٹ کیا جائے۔یہاں پر ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے شہری پریشان ہے اور ماحول خراب ہو رہا ہے عملے کا کوئی بھی شخص کسی بھی عہدے کا ہو وہ اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف مفت کی تنخواہیں کھاتے ہیں اور یہی حال محکمہ واسا کا ہے۔ محکمہ واسا کا عملہ کام کی نوعیت حوالہ سے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے ہیں۔ شہر کے مختلف مقامات پر ابلتے ہوئے گٹر گندا پانی سڑکوں پر بکھرا ہوا ہے بعض سڑکوں کی حالت تو کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہاں سے پیدل گزرنا بہت مشکل ہوتا ہے نماز کے لیے مساجد میں جانے والے نمازیوں کو بھی اس گندے پانی میں سے گزر کر کئی بار جانا پڑتا ہے شکایت کے باوجود اس طرف بھی توجہ نہیں دی جاتی محکمہ واسا کا عملہ بھی یہاں سے خود گزر کر جاتا ہے لیکن افسوس کہ وہ اس طرف توجہ کیوں نہیں دیتے شاید اس لیے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے یہ اپنی من مانیاں کرتے ہیں یہاں پر ایک اور بات بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ یہاں پر محکمہ واسا کا عملہ دفتر میں ڈیوٹی دینے کی بجائے اپنے اپنے ذاتی کاموں میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے پہلے جب کرونا کی وبا پھیلی تھی تو اس وقت بھی حالات کچھ ایسے ہی تھے اور اب سموگ کی وجہ سے بھی حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
 اور دوسری جانب محکمہ پولیس کے وارے نیارے ہر دور میں رہتے ہیں کیونکہ یہ اپنی کرپشن کے حوالے سے ہمیشہ جاگتے رہتے ہیں سوتے یہ لوگ بھی ہیں مگر صرف اپنی نیند پوری کرنے کے لیے کرونا کی وبا کے دنوں میں محکمہ پولیس کے عملہ نے مہنگائی کو بڑھانے میں اس لیے فروغ دیا کہ ان لوگوں نے جو دکانیں لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے بند ہوتی تھیں یہ ان سے منتھلی لے کر کھلوا دیتے تھے بہت ساری دکانیں ان کی منتھلیوں کی وجہ سے کھلی رہتی اور یہ دوکاندار لوگ 10 روپے والی چیز کا 100 روپے مانگتے تھے جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی گئی اور مہنگائی کا عالم یہ بڑھتا گیا کہ دکاندار حضرات نے پولیس کی اس ملی بھگت سے اس مہنگائی کو فروغ ملتا گیا جس کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی یہاں پر ایک اور بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ محکمہ پولیس کے کانسٹیبل حضرات اپنی ذاتی بغیر نمبر پلیٹ والی موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر تعیناتی تھانہ کے ایریا اور اس سے ہٹ کر دیگر ایریا جات میں بھی جا کر دکانداروں سے مختلف اشیائ اپنی وردی کی دھونس پر لے لیتے ہیں۔ جو دکاندار ان سے پیسے مانگتا ہے اس کے ساتھ یہ جھگڑا کرنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر مختلف طریقوں سے اس دکاندار کو تنگ اور پریشان کیا جاتا ہے یہ عالم ہے میرے اس محب وطن پولیس کے جوانوں کا جن کا فرض ہے مدد آپ کی مگر آپ کو یہ معلوم تو ہو ہی گیا ہے کہ یہ کس طرح کی مدد ہماری کر رہے ہیں ان پولیس اہلکاروں کا اخلاق کا عالم کچھ ایسا ہے کہ ہر کسی شخص کو یہ اوئے کر کے آواز مارتے ہیں یہ صرف اپنے آپ کو انسان اور دوسرے کو کسی اور مخلوق کا سمجھتے ہیں جو انسانیت کی بہت بڑی تذلیل ہے اور اب اس سموگ کے دوران سمارٹ لاک ڈاو¿ن میں بھی یہ لوگ اپنی دیہاڑی لگانے سے باز نہیں آتے لہذا میری درخواست وزیر اعلیٰ پنجاب سے صرف یہی ہے کہ سموگ پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے ان تینوں محکمہ جات کے قبلہ کو درست کیا جائے خاص کر کے محکمہ پولیس کا قبلہ درست ہونا بہت ضروری ہو چکا ہے کیونکہ اس وقت ان لوگوں کی زیادتیاں اور ظلم حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں انتہائی بد اخلاق پولیس اہلکاروں کو پولیس میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے میں یہاں پر تمام پولیس اہلکاروں کا ذکر نہیں کرتا لیکن اکثریت کچھ ایسی ہی ہے جس کے بارے میں بیان کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن