پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
سماجی اور سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ ہر چیز کو کٹ ٹو سائز کرنے کا انوکھا چلن ملک خداداد میں رائج ہوچکا ہے، جب بھی کوئی بھی دولت مند ہورہا ہو یا طاقتوربن رہا ہویا شہرت کی بلندیوں کی جانب عازم سفر ہوتا ہے تو اچانک ایک فرعون نمودار ہو کر سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے،پھر قدرت ایک فطری انگڑائی لیکر موسیٰ پیدا کرتی ہے جو فرعون کی خدائی کو چیلنج کر دیتا ہے،گذشتہ کئی دہائیوں سے ہمیں اس سائیکل نے شدید نقصان پہنچایا ہے، ابھی پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس ترقی پزیریت کا مرحلہ کرنے کو ہوتا ہے کہ اسے دوبارہ پسماندگی کی جانب دھکیل دیا جاتا رہا ہے،
75 برس گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے بنیادی مسئلوں سے چھٹکارا نہیں پاسکے ہیں،نہ ہم سے بجلی پوری ہوتی ہے نہ گیس، اگر عوام بجلی استعمال کریں تو انکی ا?مدنی بلوں میں نکل جاتی ہے، مہنگی بجلی نے گھروں کے سارے نظا م کو درہم بھرم کرکے رکھ دیا ہے، مہنگے ایندھن نے کارخانوں کو بند ہونے پر مجبور کردیا ہے،نظام تعلیم پہلے بھی مستعار تھا اب بھی یہ کلرکوں کے علاوہ کچھ نہیں پیدا کررہا ہے،ہماری ڈگریوں کو بیرون ملک تسلیم ہی نہیں کیا جارہا ہے، اسمبلیوں سے لیکر پنچایت تک کسی طرف بھی نظر دوڑائیں نہ جمہوریت نظر آتی ہے نہ ایک دوسرے کو برداشت کرنیکی قبولیت ہوپاتی ہے،نہ ہمارے ذہنوں میں اسلام باقی بچا ہے اور نہ ہی ہمارے اعمال سے مستنداسلام کی کوئی جھلک واضح ہوتی ہے،
چاروں طرف شہرہ ہے کہ مانیکا کے بعد کئی تہلکہ خیز انٹرویوز بھی پائپ لائن میں ہیں جس سے سیاسی افق پرکئی بھانبڑ مچیں گے، ماینکا انٹرویو کے بعد سنجیدہ سیاسی حلقے تو اس امرپر متفق ہیں پورے دور عمرانی میں مانیکا اور اسکے خاندان نے جس طرح سے فوائدو لذتیں سمیٹیںوہ سب کے سب واجب احتساب و سزا ہیں، مانیکا کا تب نہ بولنا اور اب ساری توپوں کا رخ پنکی کی جانب موڑنا انصاف کے اصولوں کے برخلاف ہے اور رہیگا،
ایمانداری سے دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ہماری ساری سیاست مشہور ٹی وی ڈرامہ میرے پاس تم ہو کی عملی کاپی بن چکی ہے، ہر دور کے سیاسی سکرپٹ میں دانش ، شہوار اور مہوش جیسے کردار ضرور موجود رہے ہیں، گذشتہ کئی ادوار میں سامنے آنیوالے دانشوں نےایسے خوفناک تجربے نہیں کئے کہ جنکے نتائج عوام پر بجلی بن کر گرے ہوں لیکن موجودہ دور میںتیار سیاسی بیانیے نے عوام کی ایسی فوج ظفر موج پیدا کردی ہے جو ایک طرف شہوار اور مہوش کو واجب سزا قرار دیکر دانش کیساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہے لیکن دوسری جانب مانیکا کیس میںا ن کا رویہ اور عمل 180 ڈگری پر جاکر بدل گیا ہے،یہ گروہ نہ بڑی عمر میں طلاق لینے دینے کے عمل کو برا سمجھتے ہیں اور نہ شادی سے قبل غیرمحرم کیساتھ ملاقاتو ں کو غیر فطری سمجھتے ہیں، یہ تو عدت میں نکاح کو خلاف قوائدنہیں مانتے ہیںبلکہ اس پر وہ بالکل ہی خاموش ہوجاتے ہیں ، مانیکا کے انٹرویو دینے کے معاملے میں وہ صرف مانیکا کو ہی غلط کار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مانیکا پہلے کیوں نہیں بولا ؟ کس کے اشارے پر خاموش رہا ؟ اب کس کے اشارے پر بولا ہے، الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ مانیکا کو مزیدید پیسوں کی طلب ہے اس لئے اس نے انٹرویو دیا ہے، یہ مخصوص گروہ اپنے مجوزہ دانش کو شہوار بننے کے باوجود اسے دانش ہی قرار دینے پر بضد ہے،اس گروہ کے مصدقہ شہوار کی زندگی میں اتنی مہوشیں آئیں جتنا جھوٹ بولیں،ہر مہوش کوئی نہ کوئی تحریری ثبوت رکھنے کا دعویٰ کرتی رہی لیکن مجال ہے کہ اس نام نہاد دانش نے کبھی ان مہوشوں کیخلاف کوئی دیوانی دعویٰ کیا ہو،اسکے ماننے والےگروہ کا ماننا ہے کہ مانیکا کا انٹرویو ہو یا کتاب ، ویڈیو کلپ ہو یا آڈیو کلپ ، ہمارا دانش دانش ہی ہے کبھی شہوار نہیں مانیں گے۔