بدھ‘24 جمادی الاول 1446ھ ‘ 27 نومبر2024

فائنل راﺅنڈ آخری اوور میں داخل۔
محفوظ راستے کی تلاش ہے یا کسی فون کا انتظار۔ یا واقعی رکاوٹوں کی وجہ سے پشاور سے چلنے والی ریلی اسلام آباد پہنچ کر بھی ابھی تک ڈی چوک کے راستے پر نہیں چڑھ سکی۔ ٹیکسلا موڑ پر قائدین ہزارہ ڈویژن سے عمرایوب کے اعلان کے مطابق ایک بڑے قافلے کے انتظار میں بھی رہےتھے۔ مگر وہ طوفان بھی نہ آسکا۔ اب قائدین کہہ رہے ہیں کہ اندر خانہ بات ہو رہی ہے‘ جلد کوئی اطلاع ملے گی۔ یوں جو سوچا تھا‘ چاہا تھا‘ وہ نہ ہو سکا۔ مگر انہوں نے اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی رینجرز اور پولیس پر دھاوا بول کر جوانوں کے خون سے ہاتھ ضرور رنگ لیئے۔
کبھی لوٹ آئیں تو نہ پوچھنا‘ مگر دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
ویسے بھی حالات کی تفسیر تو چہروں پر لکھی ہوتی ہے۔ لوگ سیانے ہو چکے ہیں‘ خود ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اب اس بار بار کی کال سے تحریک انصاف کے بانی کی سیاست اور پارٹی پر جو اثر ہوا‘ سو ہوا مگر اس اثر ملک بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ:
بوعلی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
حقیقت یہی ہے کہ کچھ لوگ صرف راہ سفر کے غبار میں کھو جاتے ہیں اور کوئی اپنی منزل کا سراغ پا لیتا ہے۔ اب معلوم نہیں تحریک انصاف اور اسکے بانی کے ساتھ کیا ہونا ہے۔ منزل قریب آتی ہے یا سفر طویل ہوتا ہے۔ باربار عوام کے صبر کا امتحان نہیں لیا جاتا۔ اس طرح بار بار کی پریکٹس سے پارٹی ورکرز اور عوام کی ساری توانائی ضائع ہو جاتی ہے اور وقت بھی۔ اب جس طرح بشریٰ پیرنی اپنے مرشد کے احکامات سے ہٹ کر اپنے احکامات صادر کر رہی ہیں‘ اس سے کیا نتیجہ نکلے گا‘ وہ آج ظاہر ہو رہا ہے۔ تحریک والے آگے آگ اور پیچھے کھائی والی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ جس کا نتیجہ تکلیف دہ تصادم ہی نکلتا ہے۔ 
سیکورٹی حصار کے باوجود جماعت اسلامی کا رہنما ڈی چوک پہنچ گیا۔ 
یہ تھی ڈی چوک پر سخت سیکورٹی کی حالت۔ جلوس کو تو چھوڑیں‘ ایک عام آدمی بھی اطمینان سے تمام سکیورٹی حصار روندتا ہوا جس طرح ڈی چوک پہنچا‘ اس نے سکیورٹی کا تمام پول کھول دیا۔ شاید جماعت اسلامی والے اپنی شکل و صورت اور مہذب رویے کی وجہ سے روک ٹوک سے بچ جاتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسی ہی خضر صورت بنائے کوئی دہشت گرد ماتھے پر محراب کا نشان سجائے یہاں تک اسی آسانی سے پہنچ جاتا تو سوچیں کیا ہوتا۔ وہ سکیورٹی حصار آسانی سے تہس نہس کرسکتا تھا مگر شکر ہے ایسا نہ ہوا اور جماعت اسلامی والا بنا بارودی جیکٹ کے تھا۔ پھر بھی ان سے پوچھا جائے کہ حضرت آپ یہاں کیا کرنے آئے تھےیہاں آپ کا جلسہ بھی نہیں تھا۔ ویسے بھی جماعت والے طالبان کے مربی رہے ہیں۔ انکے بہت سے رہنماءابھی تک طالبان کے حامی ہیں۔ ہو سکتا ہے موصوف کے پی ٹی آئی والوں سے بھی دیرینہ مراسم ہوں اور وہ مخبری کرنے یہاں آئے ہوں۔ مگر بروقت ایس ایچ او نے انہیں روک کر اہلکاروں کی مٹی پلید کرتے ہوئے واپس بھیج دیا۔ اب آئی جی اسلام آباد پتہ کریں گے کہ اہلکار کیا کر رہے تھے کہ جہاں سے چڑیا بھی نہیں گزر سکتی تھی‘ وہاں سے میاں اسلم کیسے گزر کر آگئے ہیں۔ اب تو واقعی فکر لگ رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے جتھے اگر سرکاری مشینری سمیت یہاں آگئے تو ان کو کیسے روکا جائیگا۔ یہ بات وزیر داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو سوچنا ہوگی۔ اب پی ٹی آئی کے رہنما تو اپنوں کی کاہلی اور سستی سے ناراض ہونگے کہ جو کام ان سے نہ ہوا‘ ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود وہ یہ اکیلا شخص کر گیا۔ اس سے پہلے کھاریاں میں جس طرح خواجہ سراﺅں نے تھانے پر ہلہ بول کر اپنے گرو کو چھڑایا اور لے گئے تھے‘ اسکی مثالیں دیکر یہ پہلے ہی اپنے کارکنوں کا لہو گرماتے رہتے ہیں۔ 
نیتن یاہو گرفتار ہوئے تو برطانوی معیشت کو تباہ کر دیں گے‘ امریکی سینیٹر۔
امریکی سینیٹرز حوصلہ رکھیں یوں کسی کے غم میں مرے نہ جائیں۔ انکے قابل احترام،انسان دوست ، رحمدل انصاف پسند اسرائیلی وزیراعظم کو عالمی عدالت کی طرف سے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے پر بھی کوئی گرفتار نہیں کریگا۔ کیا برطانیہ کی معیشت تباہ کرنے کے بیانات دینے والے بھول گئے ہیں کہ اس ناپاک و ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام میں اسے مضبوط بنانے میں سب سے زیادہ محنت برطانیہ اور امریکہ نے کی ہے۔ اس طرح وہ اس ناسور کے پھیلنے کے ذمہ دار ہیں جو آج مشرق وسطیٰ میں غزہ اور بیروت کو نشان عبرت بنا رہا ہے۔ ہزاروں فلسطینی اور لبنانی اسکے انتقام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جب تک اسکے سرپرست اسے نہیں روکتے‘ وہ یہ قتل عام جاری رکھے گا۔ گرفتاری تو دور کی بات کوئی اسے روک بھی نہیں سکے گا۔ نیتن یاہو نے ایک اچھا کام یہ ضرور کیا ہے کہ انکی وجہ سے عالمی برادری کی بے ضمیری اور مکاری عیاں ہو گئی ہے۔ مساوات‘ جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ بچوں اور عورتوں کے حقوق کے دعویدار بے نقاب ہو گئے ہیں۔ جھوٹی تسلیوں وعدوں اور بیانات سے عالمی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جب تک ظالم کو روکا نہ جائے، اسکے لہو میں ڈوبے ہاتھ کاٹے نہ جائیں اس وقت تک نیتن یاہو ہو یا کوئی اور۔ بے گناہوں کا لہو یونہی بہتا رہے گا اور رقص ابلیس جاری رہے گا۔ ویسے دیکھ لیں ایک بے رحم ظالم کو کبھی مظلوم پر ترس نہیں آتا۔ ہمیشہ انہیں اپنے جیسا سفاک ہی پسند آتا ہے اور وہ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسکی حمایت کرتے ہیں جو ملامت کے قابل ہوتا ہے۔ 
بھارتی ارب پتی سرمایہ دار گوتم ایڈوانی پر امریکہ میں ڈھائی کروڑ ڈالر رشوت دینے کا کیس۔
بھارتی بنیاءجہاں بھی جائیگا‘ اپنی بے ایمانی اور دغابازی سے باز نہیں آئیگا۔ خواہ کتنا بڑا اور امیر ہی کیوں نہ ہو یا فقیر۔ اب یہی دیکھ لیں‘ مودی کی ناک کا بال‘ اسکی جماعت کا ایک بہت بڑا مالی سپورٹر گوتم ایڈوانی جو کھربوں کا کاروبار کرتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ اسکے باوجود وہ ہیرا پھیری سے باز نہیں آسکا۔ یعنی اس کی فطرت نہیں بدلی۔اب امریکہ میں نریندر مودی کے نورتنوں میں سے ایک اس اہم رتن کو بے ایمانی اور رشوت کے الزام کا سامنا ہے۔ جہاں انہوں نے معاہدوں کے حصول کیلئے امریکی حکام کو کروڑوں ڈالر رشوت دیکر کام کرائے۔ اب قانونی گرفت میں آنے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے سرپرست مودی کی حکومت بھی پریشان ہے۔ وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ اپنے اس آقائے ولی نعمت کو اس عذاب سے چھٹکارا دلائے۔ بیرون ملک کاروبار کرنے والے تاجر‘ صنعت کار سرمایہ دار بھارتی وہاں بھی اپنا کلچر ساتھ لے جاتے ہیں اور باعث ننگ و نام کہلاتے ہیں۔ ابھی امریکہ اور کینیڈا میں بھارتی حکومت کی آشیرباد سے اسکی خفیہ ایجنسی ”را“ نے متعدد بھارتی شہریوں کو جن میں خالصتان تحریک کے حامی زیادہ ہیں‘ بے رحمی سے قتل کرایا۔ اس پر ابھی کافی لے دے ہو رہی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا نے یہ الزام مکمل ثبوتوں کے ساتھ بھارت پر لگاتے ہوئے اس پر سفارتی احتجاج بھی کیا ہے کہ بھارت ان ممالک کے اندر بدامنی نہ پھیلائے بلکہ یہاں کے ملکی قوانین کی پاسداری کرے ورنہ اسکے خلاف ایکشن لیا جا سکتا ہے۔ اب مالی بدعنوانیوں کا سلسلہ بھی دراز ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے بھارتی سرمایہ دار اس گند میں ملوث ہیں جو رشوت دیکر اپنا کام کرواتے ہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ اس حرکت میں بھی انہیں مودی سرکار کی حمایت حاصل ہے۔۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...