حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی

Nov 27, 2024

قیوم نظامی

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذ آرائی سیاسی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے تحریک انصاف کے 24 نومبر کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے جس انداز سے اسلام اباد اور بڑے شہروں کے راستے بند کیے ہیں اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو کم و بیش 30 جگہوں سے کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ اسلام آباد سے نہ کوئی باہر جا سکتا ہے نہ کوئی باہر سے اندر آ سکتا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی اور لاہور کی سڑکوں کو بھی کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کیا گیا۔ اپوزیشن کے لیڈروں اور تحریک انصاف کے سرگرم کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ان کو گرفتار کیا گیا۔ بڑے شہروں کے اندر آمد و رفت کو بند کیا گیا جس سے پاکستان کے عوام کو انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اشیائے ضروریہ کی سپلائی رک گئی۔ ایمبولنسیں ہسپتالوں تک نہیں پہنچ سکیں۔ اس نوعیت کی غیرمعمولی حفاظتی تدابیر سے حکومت کے اس تحریک سے خوف زدہ ہونے کی عکاسی ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس کوئی سیاسی حل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ریاستی طاقت کو استعمال کر کے اپوزیشن کی مزاحمتی تحریک کو کچل دینا چاہتی ہے۔ حکومت نے اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں جس انداز سے لاک ڈاو¿ن کیا ہے اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کار اس اندیشے میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے اندر شدید سیاسی عدم استحکام ہے اور ماحول سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں ہے۔ انرون اور بیرون ملک یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ عمران خاں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عدالتیں جب ان کو مقدمات سے بری کر دیتی ہیں اور ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کرتی ہیں تو حکومت ان کے خلاف کوئی اور مقدمہ درج کرا دیتی ہے۔ یہ رویہ کسی طور بھی جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے مطابق نہیں ہے۔ احتجاجی تحریک کی وجہ سے قومی خزانے کا اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے مگر حکومت جس کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم سے ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہوگیا اور درجنوں سیکورٹی اہل کار زخمی ہوگئے۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کو حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔ اگر حکومت عمران خان کو جیل سے بنی گالہ منتقل کر دیتی تو تحریک انصاف کے نوجوانوں میں پایا جانا والا غصہ کم ہو جاتا۔ ملک میں جمہوری نظام کے تحت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے کردار اہم ہیں لیکن اکثر یہ تعلقات تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سب سے بڑی وجہ اقتدار کی جدوجہد ہے۔ اپوزیشن حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ عوام کا اعتماد حکومت سے ہٹایا جا سکے، جبکہ حکومت اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کے لیے اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ سیاست دان اکثر ایک دوسرے کے خلاف ذاتی الزامات لگاتے ہیں جس سے تنازعات مزید شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ سیاسی مباحثے عوامی مسائل کے بجائے ذاتی حملوں پر مرکوز ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں برداشت کا فقدان عام ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی رائے کو قبول کرنے یا اختلاف کو جمہوری انداز میں حل کرنے کے بجائے تنازعہ کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ پاکستان میں بعض اوقات ریاستی ادارے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہ مداخلت تنازعات کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں۔ حکومت اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے احتساب کے عمل کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے جبکہ اپوزیشن اسے انتقامی کارروائی قرار دیتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی مسائل نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دونوں فریق مل کر عوام کی بہتری کے لیے کام کریں وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان حالیہ محاذ آرائی 8 فروری 2024ءکے انتخابات کے بعد شروع ہوئی تھی جب مبینہ طور پر تحریک انصاف کا انتخابی عوامی مینڈیٹ چوری کر لیا گیا۔ پاکستان مقروض غریب اور پسماندہ ملک ہے۔ وہ اس نوعیت کی شدت پر مبنی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
حالات کو نارمل بنانے کے لیے قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سنجیدہ مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ دونوں فریق جمہوری اقدار کا احترام کریں اور آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی پہلی ترجیح عوام کے بنیادی مسائل ہونے چاہیں جو روز بروز تشویش ناک ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کے لیے عزت کے ساتھ زندگی گزارنا ہی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ غیر معمولی دہشت گردی نے پاکستان کے مستقبل کو ہی داو¿ پر لگا رکھا ہے گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں۔ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں خیبر پختون خواہ سے آنے والے قافلے اسلام آباد میں داخل ہو چکے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کو ڈی چوک اسلام آباد میں پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اس بیان سے تحریک انصاف کے عزائم کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی سرحد پر چند دن ڈیرے ڈالے رکھیں تو حکومت کو ان کے خوف کی وجہ سے اسلام آباد کو مزید چند دن تک بند رکھنا پڑے گا۔ اس دو طرفہ ضد کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا سیاسی نقصان ہوگا۔ پاکستان کے جو عوام سیاسی احتجاج کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں انکے دلوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے خلاف نفرت اور غصہ پیدا ہوگا۔ پاکستان کے غیر جانبدار اور خاموش عوام کی اکثریت حکومت اور اپوزیشن دونوں سے یہ توانا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے اپنے اختلافات حل کریں۔ حکومت خیبر پختون خواہ سے آنے والے قافلوں کو اسلام آباد میں ایسی جگہ پر آنے کی اجازت دے جہاں پر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا احتمال نہ ہو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دھرنے کی جگہ کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ وفاق اور صوبے کے درمیان خلیج پیدا کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ پہلے ہی حالت جنگ میں ہے۔ قومی مفاد اور معروضی حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومت عمران خان کی عدالت سے ضمانت کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کی وجہ سے انتشار پیدا ہو سکتا ہے تو ان کو حفاظتی تدابیر کے تحت بنی گالہ میں نظربند کر دیا جائے تاکہ ان کے کارکنوں میں نفرت اور غصے کے جذبات کو کم کیا جا سکے۔ ملک میں کوئی ایسی قابل اعتماد قومی شخصیت ضرور ہونی چاہیئے جو قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار ادا کرے۔ جمہوری اصولوں کو پامال کرنے، چادر اور چار دیواری کے وقار کو مجروح کرنے، آئین اور قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرنے، لوگوں کی آمد و رفت کے راستے بند کرنے اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرنے سے یہ بہتر ہے کہ جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے تاکہ سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہونے والے اربوں روپے بچائے جا سکیں۔ 
راقم کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ میری حب الوطنی پر مبنی رائے پاکستان اور 25 کروڑ عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ اگر تحریک انصاف کے سیاسی اسیروں کو رہا کر دیا جائے تو حالات سازگار ہو سکتے ہیں اور گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ دکھ اور اذیت کی بات یہ ہے کہ قومی مفاد کسی کو بھی عزیز نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا بحران روز بروز پیچیدہ، سنگین اور تشویش ناک ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے بے بس عوام ہاتھ اٹھا کر دعائیں کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

مزیدخبریں