ریاست کے خلاف غدر اور جمہوری اقدار کا واویلا

آجکل بعض دانشور حضرات غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھ کر سوشل میڈیا پر بھی اور اپنی تحریروں کے ذریعے بھی یہ سوال اٹھاتے نظر آرہے ہیں کہ آیا ماضی کی کسی اپوزیشن تحریک کو دبانے کیلئے کبھی کسی حکومت کی جانب سے شاہراہوں اور سڑکوں کو کنٹینرز لگا کر اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کرکے پورے ملک کو اس طرح بند کیا گیا ہے جیسے آج پی ٹی آئی کے احتجاجی پروگرام کو روکنے کیلئے جگہ جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پورے ملک کو عملاً بند کیا گیا ہے۔ غیرجانبداری کا تاثر دینے والے ایک دانشور نے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے جید دانشور کی پوسٹ پر میرے کمنٹس دیکھ کر مجھ سے بھی یہی استفسار کیا جس کے جواب میں مجھے ان سے یہ استفسار کرنا پڑا کہ آیا ماضی میں اپوزیشن کی کوئی ایسی تحریک بھی چلی جس میں کارکن باقاعدہ مسلح ہو کر ہاتھوں میں ڈنڈے اور غلیلیں اٹھائے اور اپنے بیگز میں پتھر اور روڑے بھر کر جلوس میں شامل ہوئے ہوں اور پولیس اہلکاروں پر سیدھے فائر کرتے‘ پٹرول بم پھنکتے‘ لاٹھیاں برساتے اور غلیلوں سے نشانہ باندھ کر سکیورٹی اہلکاروں کو پتھر مارتے نظر آئے ہوں۔ اگر اپوزیشن کی کسی تحریک کے دوران ریاستی اتھارٹی کو کھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے ریاستی اداروں بالخصوص سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ انکی عمارات‘ حساس تنصیبات اور قومی ہیروز کے مجسموں تک پر منظم انداز میں حملے کرکے ان کا حشرنشر کیا جائے‘ قومی پرچم اتار کرپاﺅں تلے روندا جائے‘ سکیورٹی حکام کی ہینگرز پر لٹکی وردیوں کو ہجوم میں لا کر تضحیک کا نشانہ بنایا جائے‘ پارلیمنٹ ہاﺅس ‘ ٹی وی اور ریڈیو کے دفاتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جائے تو کیا وہ سکیورٹی ادارے جن کی آئینی ذمہ داری شہریوں کی جان و مال اور ملک کی سلامتی اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے‘ ریاست اور اسکی املاک کے خلاف ایسی غنڈہ گردی‘ تخریب کاری اور ان تحریب کار عناصر کی جانب سے سیدھے فائر ہوتے اور پٹرول بم چلاتے دیکھ کر بھی ہاتھ باندھے‘ آنکھیں بند کئے اور کان لپیٹے ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے یہ سارے مناظر دیکھتے ہی رہیں گے یا ایسی دیدہ دلیرانہ حرکات کو روکنے کیلئے اپنا آئینی فریضہ ادا کرینگے۔ کیا اب گزشتہ سال 9 مئی والے واقعات دہرانے کی کسی کو اجازت دی جا سکتی ہے۔ جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی و عملداری کیلئے فکرمند ایسے دانشوروں کی جانب سے مجھے ابھی تک میرے اس استفسار کا کوئی مدلل جواب نہیں ملا۔ 
جب 9 مئی کے مچائے گئے غدر کا تذکرہ کیا جائے تو ان دانشوروں کی جانب سے عذرگناہ بدتر از گناہ کے مصداق یہ درفنطنی چھوڑی جاتی ہے کہ 9 مئی کے واقعات کرنے والوں کو جی ایچ کیو‘ کورکمانڈر ہاﺅس اور دیگر اہم سرکاری عمارت کی جانب جانے سے روکا کیوں نہیں گیا۔ اگر انہیں روکا نہیں گیا تو اس سے یہ مراد ہے کہ توڑ پھوڑ کے یہ واقعات حکومت نے خود کرائے ہیں اور اس کا ملبہ پی ٹی آئی پر ڈالا گیا ہے۔ میں نے گزشتہ سال 9 مئی کے دلدوز واقعہ کے بعد نوائے وقت کی ٹیم کے ہمراہ خاکستر جناح ہاﺅس کا خود مشاہدہ کیا تھا جہاں تباہ کاریوں کے مناظر دیکھ کر میرے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ آیا کوئی محب وطن سیاسی لیڈر محض اپنے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے کارکنوں کو ملک کی سلامتی اور ساکھ کو تاراج کرنے والے ایسے راستے پر لگا سکتا ہے جس کے مظاہر 9 مئی والے واقعات میں نظر آئے۔ شائد ملک کا کوئی بیرونی دشمن بھی ایسی سفاکی کا مظاہرہ نہ کر پائے جو 9 مئی کے روز پاکستان کے ریاستی اداروں کیخلاف رونما ہوتی پوری دنیا نے دیکھی۔ اس سے دنیا کو پاکستان کی سیکورٹی کے حوالے سے کیا پیغام ملا؟ 
9 مئی کے واقعات کے حوالے سے میرا بھی یہی کرب تھا کہ کسی کو ریاستی اداروں کیخلاف ایسا غدر مچانے کی کھلم کھلا چھوٹ کیسے مل گئی۔ میں نے جناح ہاﺅس کے دورے کے دوران واقعہ کی تفصیلات بتانے والے سکیورٹی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر سے یہ استفسار بھی کیا کہ غدر مچانے والے غنڈہ عناصر کو یہاں تک پہنچنے سے روکا کیوں نہ گیا‘ انکی یہ دلیل اپنی جگہ درست ہوگی کہ ہم متعلقہ پارٹی کو لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع نہیں فراہم کرنا چاہتے تھے اس لئے مظاہرین پر کسی قسم کی سختی نہ کرنے کا راستہ اختیار کرنا مناسب سمجھا گیا۔ مگر میں خود بھی ایسی کسی حکمت عملی کا قائل نہیں جس سے سیاست کی آڑ میں کسی کو ملک کی سلامتی سے کھیلنے‘ ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونے اور قومی حمیت کی علامت اسکی تنصیبات اور قومی پرچم تک کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ مل جائے۔ آج 9 مئی والے واقعات دہرانے کے ایجنڈے کے تحت پی ٹی آئی احتجاج کیلئے سڑکوں پر آئی ہے اور ریاستی انتظامی اتھارٹی نے اسے ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے اقدامات سے روکنے کیلئے اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف شہروں میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں تو غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھنے والے دانشوروں کو اپوزیشن کی ماضی کی تحریکوں کے حوالے سے یہ سوال اٹھانے کا موقع مل گیا ہے کہ کیا ماضی میں اپوزیشن کو دبانے کیلئے کبھی ایسا راستہ اختیار کیا گیا۔ جب 9 مئی کو ریاستی اتھارٹی کی جانب سے دی گئی چھوٹ کے باعث پی ٹی آئی کے قائدین‘ عہدیداروں اور کارکنوں نے ریاستی اداروں کیخلاف غدر مچایا تو یہی دانشور آج بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ غدر مچانے والے لوگوں کو روکا کیوں نہ گیا جبکہ اب غدر مچانے سے روکنے والے اقدامات اٹھائے گئے ہیں تو یہی دانشور آسمان سر پر اٹھائے واویلا کر رہے ہیں کہ پورے ملک کو بند کرکے جمہوریت کو پامال کیا گیا ہے اور نقل و حرکت کے آئینی حقوق پر قدغنیں لگائی گئی ہیں۔ 
بے شک آئین نے ہر شہری کو اظہار رائے اور نقل و حرکت کی آزادی دی ہے مگر یہ آزادی ریاست کے خلاف غدر مچانے کیلئے تو استعمال نہیں کی جاسکتی۔ اگر کوئی اس آزادی کی آڑ میں ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے تہس نہس کے راستے پر چلتا ہے تو اسی آئین اور دوسرے متعلقہ قوانین نے ایسے عناصر کو نکیل ڈالنے کا متعلقہ ریاستی انتظامی اداروں کو بھی اختیار دیا ہوا ہے۔ آپ اندازہ لگالیجئے کہ غدر مچانے کا ایجنڈا رکھنے والے پی ٹی آئی کے لوگوں نے نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کے باوجود جس وحشیانہ انداز میں پولیس اور رینجرز پر پتھراﺅ اور فائرنگ کرکے دو پولیس کانسٹیبلوں کو شہید اور 120 سے زائد اہلکاروں کو زخمی کیا ہے اور پھر اسلام آباد آنیوالی سری نگر شاہراہ پر وہاں موجود رینجرز کے دستے پر گاڑی چڑھا کر چار رینجرز اہلکاروں کو شہید اور متعدد کو زخمی کیا ہے‘ اگر انہیں 9 مئی جیسی چھوٹ حاصل ہوتی تو آج ان تخریب کاروں کے ہاتھوں اس ملک کی دھرتی کس حشرنشر کی تصویر پیش کررہی ہوتی۔
میں نے پاکستان قومی اتحاد کی حکومت مخالف تحریک سے اے آر ڈی کی تحریک تک تقریباً ہر احتجاج کا ایک ورکنگ جرنلسٹ کی حیثیت سے خود مشاہدہ کیا ہوا ہے جس میں ایم آر ڈی کی تحریک کا آٹھ سال کا عرصہ بھی شامل ہے۔ ان میں سے کسی ایک تحریک کے دوران بھی کسی سیاسی کارکن کو ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف 9 مئی جیسا غدر مچانے کی کبھی جرات ہوئی نہ اس کا خیال آیا۔ ان تحریکوں کے کارکن خود ریاستی جبر کا سامنا کرتے ہوئے کوڑے کھاتے‘ پھانسیوں پر جھولتے‘ ٹارچر سیلوں کی اذیتیں برداشت کرتے اور قید و بند کی تمام صعوبتیں اٹھاتے رہے ہیں مگر خود بندوق اٹھا کر ریاست کے سامنے کھڑا ہونے کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا۔ اگر پی ٹی آئی کی مقید اور آزاد قیادت اپنے کارکنوں کو اکسا کر ریاستی اداروں کے مدمقابل لانا ہی اپنی سیاست کی کامیابی سمجھتی ہے تو پھر اسلام آباد اور دوسرے متعلقہ علاقوں میں رینجرز اور فوج کو تعینات کرنے کا آئینی جواز بھی موجود رہے گا۔ اگر ’غیرجانبدار“ دانشوروں کو ریاست کے یہ اقدامات ریاستی جبر لگتے ہیں تو ریاست کے خلاف غدر مچانے والے کسی سیاسی پارٹی کے اقدامات تخریب کاری کے زمرے میں کیوں نہیں آئیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...