حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد سیاسی سٹاک ایکسچینج میں ان کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے وہ جارحانہ موڈ میں ہیں جبکہ حکومت دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ ابھی یہ کہنا کہ اس صورتحال کا نتیجہ کیا نکلے گا قبل از وقت ہو گا کیونکہ بعض دفعہ سڑکوں پر کھیلے جانے والا کھیل ہاتھوں سے اس طرح پھسل جاتا ہے کہ وہ کچھ کا کچھ رخ اختیار کر جاتا ہے اورمعاملات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتے۔ ابھی حکومت مظاہرین کے دھرنے کے لیے جگہ مختص کرنے پر راضی ہو چکی ہے لیکن تحریک انصاف اپنی مرضی کے مذاکرات چاہتی ہے۔ وہ ہر صورت ڈی چوک پہنچ کر اپنی فتح کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس حکومت کو دینے کے لیے صرف احتجاج ختم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ جو کچھ بھی دینا ہے وہ حکومت نے دینا ہے۔ حکومت فوری طور پر سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے احتجاج ختم کروا سکتی ہے ورنہ احتجاج گلے پڑ سکتا ہے۔ اب اپنی شرائط پر اسے ختم کروانا ممکن نہیں ہو گا۔
اب تحریک انصاف کو مطمئن کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ حکومت اگر یہ وعدہ کرلے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف مزید کسی کیس میں گرفتاری نہیں ڈالے گی اور عدالتیں جو فیصلہ کریں وہ اس پر عمل کریں گے تو عمران خان ضمانت کے بعد رہا ہو سکتے ہیں کیونکہ باقی کیسز میں ان کو ضمانت مل چکی ہے اور جس کیس میں ابھی ان کی گرفتاری ڈالی گئی ہے اس کی ابھی تفتیش ہونا باقی ہے۔ حکومت صرف ایک مطالبہ مان کر اور باقی مطالبات پر کمشن بنا کر معاملہ کو ٹال سکتی ہے لیکن جیل میں بند عمران خان حکومت سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اگر وہ رہا ہو کر آ جاتا ہے وہ کچھ بھی نہ کرے، خاموشی اختیار کرلے جو اس کے بس کی بات نہیں تو بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان کی محض عدالت میں پیشی کے وقت وہاں جو مجمع اکٹھا ہو گا وہ حکومت سے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حالات کا حکومت کو یقین تھا کہ وہ مظاہرین کو آوٹ آف کنٹرول نہیں ہونے دے گی یہی وجہ تھی کہ اسی اعتماد پر وفاقی اور پنجاب حکومت نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اقدامات کی وجہ سے پنجاب میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکی۔ پنجاب حکومت نے میانوالی کے علاوہ دوسرے علاقوں سے کسی کو نہیں نکلنے دیا دستیاب متحرک کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا اور سڑکیں بند کرکے اسلام آباد جانا ناممکن بنا دیا۔
وفاقی حکومت نے بھی اسلام آباد کو مکمل سیل کر دیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا اور حکومتی اقدامات پر عوام کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ دوسرا اس بار تحریک انصاف کی حکمت عملی منفرد تھی۔ انھوں نے پنجاب پر زیادہ توجہ نہیں دی اور پنجاب سے لوگوں کو لانے کی بجائے کچھ دن قبل ہی لوگوں کو اسلام آباد یا خیبرپختونخوا پہنچنے کی ہدایت کر دی خیبرپختونخوا سے بھی باقاعدہ حکمت عملی کے ذریعے ساری طاقت ایک جگہ پر اکھٹی کرنے کی بجائے مختلف روٹس سے قافلے اسلام آباد لانے کی پلاننگ کی گئی۔ دوسرا حکومت کا سارا فوکس 24 نومبر تھا جبکہ پی ٹی آئی نے 24 نومبر خیبرپختونخوا میں ہی گزار کر ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں کو تھکا دیا اور اگلے دن اس طاقت کے ساتھ ہلہ بولا کہ اسے روکنا ممکن نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ بشری بی بی کا خود لیڈ کرنا بھی کارکنوں کو جذباتی کر گیا۔ پہلی بار تحریک انصاف مکمل تیاری کے ساتھ آئی۔ تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کو نمایاں کرنے کے لیے دنیا کے 62 ملکوں میں احتجاج کرکے دنیا کی توجہ عمران خان کی رہائی کی جانب مبذول کروائی اور اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج عالمی میڈیا میں زیر بحث رہا۔ عالمی رائے عامہ نے بھی حکومت پر کافی دباو ڈالا حتی کہ امریکی ترجمان میتھیو ملر کو بھی صحافی کے سوال کے جواب میں کہنا پڑ گیا کہ امریکہ آزادی اظہار رائے اور پر امن اجتماع کی حمایت کرتا ہے۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ مظاہرین کی بہت بڑی تعداد اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکی ہے۔ حکومت زیادہ دن تک پابندیاں برقرار نہیں رکھ سکے گی کیونکہ اسلام آباد میں کھانے پینے کی اشیاءاور پٹرولیم کی شارٹیج شروع ہو گئی ہے۔ حکومت نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے فوج کو طلب کر لیا ہے لیکن حکومت کی یہ پالیسی بھی کارگر نہیں ہو پائے گی اور چند روز میں پتہ چل جائے گا کہ ہواوں کے رخ بدل چکے ہیں ہم نے تو بشری بی بی رہائی کے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہواوں کے رخ بدل رہے ہیں۔