پاکستان اور بھارت ہمسائیگی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے تنازعات کا شکار ہیں۔ دونوں کے مابین مقبوضہ جموں و کشمیر تنازع کی اصل اور سب سے بڑی وجہ ہے۔ جس پر تین خوفناک جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ تاہم جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ بین الاقوامی قانون کے تناظر میں بھی تنازعات کا حل جنگ کی بجائے باہمی مذاکرات اور گفت و شنید میں ہے۔ لیکن بھارت نے مذاکرات کے لیے کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود بھارت کشمیر کا مسئلہ حل کرنے اور یہاں رائے شماری کے لیے تیار نہیں۔ حق خود ارادیت کشمیریوں کا تسلیم شدہ بنیادی حق ہے۔ لیکن بھارت اس حق سے انھیں محروم رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے کشمیر میں حریت کی جو تحریک چل رہی ہے وہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ یہاں شہیدوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جو حصول آزادی کے لیے قربان ہوگئے۔ کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں شہید یا غازی موجود نہ ہوں۔
پچھلی تین دہائیوں میں یہاں پیدا ہونے والے بچوں نے صرف بارود کی بارش اور خون کو بہتے دیکھا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے باسیوں نے تاریخ انسانی میں جدوجہد اور قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جو دنیا میں شروع ہونے والی آزادی کی تحریکوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ 40ءکی دہائی میں جب ہندوستان کی تقسیم کا فارمولا طے پا رہا تھا، برطانوی راج کے کرتا دھرتا لارڈ ﺅنٹ بیٹن نے اصولی طور پر تسلیم کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ جبکہ مسلمانوں کی جانب سے قائداعظم محمد علی جناح اور ہندوﺅں کی طرف سے گاندھی نے ہندوستان کی تقسیم کے اس فارمولے کو تسلیم کیا۔ لیکن اگست 1947ءمیں تقسیم کا وقت آیا تو گاندھی نے انگریز کی ملی بھگت سے وہ کچھ نہ ہونے دیا جو تقسیم ہند کے فارمولے میں طے پایا تھا۔
پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے شامل ہوگئے۔ تاہم تقسیم کے فارمولے سے روگردانی کرتے ہوئے ماﺅنٹ بیٹن نے جموں و کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر دیا۔ حالانکہ یہ مسلمانوں کی اکثریت والی وادی تھی۔ تب سے اس تنازعے نے جنم لیا۔ اس کا ایک فریق پاکستان بھی ہے۔ 1948ءمیں پاکستان اور بھارت کے بیچ اس تنازعے نے شدت اختیار کرلی۔ دونوں ملکوں کے مابین ایک عسکری جنگ کا آغاز ہوا۔ جنگ اگرچہ چند دنوں تک محدود رہی لیکن اس جنگ نے کشمیر کے تنازعے کو پوری دنیا میں اجاگر کردیا۔ معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچا جس کی مداخلت پر محدود پیمانے پر ہونے والی یہ جنگ اپنے اختتام تک پہنچی۔ تاہم اقوام متحدہ نے اس موقع پر ایک قرارداد کی منظوری دی جس میں کہا گیا کہ کشمیر کے مسئلے کو حق خود ارادیت کے اصول پر طے ہونا چاہیے اور کشمیر کے لوگ حق رائے دہی کے ذریعے طے کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، آزاد حیثیت میں رہنا پسند کریں گے یا بھارت کے ساتھ ہی الحاق کو ترجیح دیں گے۔
بھارت جانتا تھا کہ محکوم کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیا تو کشمیر کو گنوا دے گا۔ بھارت کشمیر کو اس لیے کھونا نہیں چاہتا کہ وادیِ کشمیر میں اتنے دریا ہیں اور پانی کی اتنی بہتات ہے کہ جس سے پورا بھارت سیراب ہوتا ہے۔ کشمیر کے پانی سے بھارت وافر مقدار میں اب بجلی بھی پیدا کر رہا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کے مابین بہت بڑے تنازعے کی صورت میں موجود ہے۔ 65ء اور پھر 71ءمیں بھی دونوں ملک ایک دوسرے سے ٹکرا چکے ہیں۔ دونوں جنگوں میں دونوں ہی اطراف سے نقصان کا اندازہ اربوں ڈالر میں ہے۔ جو جانی نقصان ہوا اس کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔
اگرچہ پاکستان بھارت کی نسبت ایک چھوٹا ملک ہے لیکن دفاعی لحاظ سے ہماری فوج کی دھاک بھارت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ بھارتی جرنیل بھی مانتے ہیں کہ پاکستان سے کبھی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ پاکستان کی فوج سے لڑنا آسان نہیں۔ حال ہی میں بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل ایس موہن نے، جو جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کی امن فورس کے کمانڈر ہیں، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کو ایک خط لکھ کر ساری دنیا کو حیران کردیا۔ خط میں پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جمعرات کو جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ بھارتی جنرل ایس موہن نے سوڈان میں اقوام متحدہ کی امن فورس میں پاکستانی فوجیوں کی پیشہ ورانہ مہارت، لگن اور غیر متزلزل عزم دیکھ کر اپنے خیالات پر مبنی ایک خط پاکستانی آرمی چیف کو لکھا۔ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل نے پاکستانی امن دستے کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر شفقت اقبال اور کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل شہباز اکمل کے پیشہ ورانہ کردار کو سراہا اور ان کی بہت تعریف کی۔
بھارتی فوجی افسر کے خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی امن دستےنے جنوبی سوڈان کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پیچیدہ اور چیلنجنگ آپریشنل ماحول میں کافی مشکل کام کیے۔ بھارتی فوجی افسر نے لکھا کہ پاکستانی دستے نے دن رات کام کیا اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں دو لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ بے گھر افراد کی حفاظت کی اور انہیں ہر طرح کی مدد بہم پہنچائی۔ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل ایس موہن کا خط اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ بھارتی آرمی بھی پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں کی معترف اور مداح ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز میں فعال تعاون کے ذریعے عالمی امن اور سلامتی کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کے لیے عالمی برادری کے ایک ذمہ داررکن کے طور پر اہم کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور بھارتی لیفٹیننٹ جنرل کا ہمارے آرمی چیف کے نام خط اس بات کا برملا اعتراف ہے۔