افتخار احمد سندھو کی خود نوشت "افتخار نامہ" کا تجزیاتی مطالعہ 

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی 
rachitrali@gmail.com 

افتخار احمد سندھو کی خود نوشت "افتخار نامہ" ان کی پوری زندگی کا ایک مکمل قصہ ہے جو کہ ایک عام آدمی کے عزم و عمل کی مکمل داستان ہے۔ مصنف نے اس کتاب کا انتساب اپنے تہجد گزار والدین کے نام وقف کرکے ایک فرمان بردار بیٹے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ کتاب ان کی زندگی کے نشیب و فراز، تجربات اور مشاہدات پر مبنی سچی کہانی ہے۔ 272 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں افتخار احمد سندھو نے اپنی زندگی کے اہم پہلوو¿ں، جذباتی و ذہنی سفر، اور اپنے عہد کے سماجی و سیاسی حالات کو خلوص و ایمانداری کے ساتھ سچ سچ لکھا ہے۔ کتاب کی اشاعت قلم فاو¿نڈیشن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے علامہ عبد الستار عاصم نے کی ہے۔ کتاب کے فلیپ میں اسد الل? غالب لکھتے ہیں:
"افتخار احمد سندھو کی شخصیت ہزار رنگوں سے مزین ہے۔ کوئی دوسرا شخص ان کے کردار کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتا۔ اچھا ہوا کہ اب انہوں نے خود ہی قلم اٹھا لیا اور اپنی آپ بیتی خود لکھ ڈالی ہے۔ ان کے دامن میں جو کچھ بھی تھا، وہ انہوں نے اس کتاب میں سمو دیا ہے۔ یہ کتاب ایک دیہاتی شخص کی سادگی کا بھی عکس ہے، اور ایک کاروباری شخص کی تہہ در تہہ کامیابیوں کا انبار بھی۔ یہ کتاب ایک سادہ منش انسان کے علم و فضل سے بھی لبریز ہے۔ افتخار احمد سندھو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا نہیں ہوئے، بلکہ اپنی محنت اور اللہ کے بھروسے پر آج ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ افتخار احمد سندھو نے علم و ادب کی فضائے بسیط میں ایک نئی کہکشاں کو جنم دیا ہے، اس کہکشاں کی ایک ایک سطر جگمگ جگمگ کر رہی ہے۔ لوگوں کو ایک اچھے انسان کے اندر جھانکنے کا موقع ملے گا"
افتخار نامہ کا مرکزی موضوع مصنف کی زندگی کے تجربات، معاشرتی مسائل، ذاتی جدوجہد، اور انسانیت کے لیے محبت و اخلاص کا اظہار ہے۔ کتاب میں نہ صرف ذاتی مشاہدات بیان کیے گئے ہیں بلکہ معاشرتی و سیاسی تبدیلیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف کا پیغام انسانیت سے محبت، اخلاص اور اپنے رشتوں کی قدر کرنا ہے۔ کتاب کے بارے میں حبیب اکرم لکھتے ہیں:
"افتخار سندھو صاحب سے ملیں تو یوں لگتا ہے پنجاب سے مل رہے ہیں۔ مزاج میں وسعت، ہر طرح کے نقطہ نظر کے لیے برداشت، اپنے موقف پر جمے رہنا مگر دوسرے کی رائے سنتے چلے جانا۔ خود پر زیادہ ہنسنا اور جہاں کوئی دوسرا فقرے کی زد میں آجائے تو یوں بھی سہی۔ ان سے ملنے کے بعد کچھ ایسا احساس ہوتا ہے جیسے کوئی اچھا شعر سن لیا جائے، جیسے کوئی گیت جو دل میں اتر جائے۔ شعر کا کوئی مول ہے نہ گیت کا لطف کسی پیمانے پر ناپا جاسکتا ہے۔ بس ایک فرحت ہے جو محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کے مزاج کی یہی خوبی لفظوں میں ڈھل کر ان کی کتاب میں اتر آئی ہے۔ اس کتاب کو افتخار صاحب خواہ خود نوشت ہی کہیں، اصل بات ہے کہ یہ ہم سبھوں کی سرگزشت ہے، یعنی ایک عام آدمی کی کہانی کہ وہ کیسے تاریخی واقعات کا چارہ بنتا ہے۔ کیسے وہ اپنے ملک کے لیے تڑپتا ہے اور کچھ نہیں کر پاتا کبھی کچھ بدلنے کا ارادہ کرتا ہے، ہارتا ہے اور پھر سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جو مو¿رخ نہیں لکھتے ، یہ پاکستانی تاریخ کے ایک انسان پر گزرنے کی کہانی ہے"
کتاب کی ساخت سادہ اور منظم انداز میں ترتیب دی گئی ہے، جو مصنف کے زندگی کے مختلف ادوار اور تجربات کی تصویر کشی کرتی ہے۔ ہر باب میں مصنف کی زندگی کے ایک خاص دور یا واقعے کو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ مصنف نے خود لکھا ہے جو قاری کو ان کی شخصیت کی جھلک دکھاتا ہے۔ مجیب الرحمن شامی، اسد اللہ غالب، حبیب اکرم، ندیم اپل، اور علامہ عبد الستار عاصم جیسے معتبر ناقدین نے کتاب پر تبصرے لکھے ہیں، جو خود نوشت کی اہمیت اور مصنف کے منفرد اسلوب کو اجاگر کرتے ہیں۔ کتاب کے پس ورق میں مجیب الرحمن شامی افتخار احمد سندھو کروڑوں میں ایک قرار دے کر لکھتے ہیں:
"افتخار احمد سندھو اپنی ڈھب کے آدمی ہیں۔ سب سے جڑے ہوئے لیکن سب سے الگ۔ لاکھوں کیا کروڑوں میں ایک ہیں۔ رہن سہن کے لحاظ سے خالص پنجابی، لیکن ان کا اندیشہ افلاکی اور پرواز لولاکی ہے۔ اصل شاہینی تو ہے ہی، آنکھوں میں بے باکی بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ پاکستان ہی کے نہیں عالم اسلام کے شہری ہیں، اس میں بستے، اس کے لیے سوچتے اور سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ ان کی خود نوشت میں وہ سب کچھ موجود ہے، جو ان کی آنکھوں، دل اور دماغ میں پایا جاتا ہے، یا پایا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے مشقت کی ہے اور راحت کا لطف بھی اٹھایا ہے۔ غربت سے پالا پڑا ہے، اور لاکھوں، کروڑوں میں بھی کھیلے ہیں بلکہ کھیل رہے ہیں۔ کاشتکاری کی، مویشی پالے، بیرون ملک جاتے جاتے ارادہ ترک کر دیا، پراپرٹی کے کاروبار میں قدم رکھا اور وارے نیارے ہو گئے۔ پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر ان کی نظر ہے، گہری یا طائرانہ، اس بارے میں اپنی اپنی رائے رکھی جاسکتی ہے۔ قرآن کریم کے وہ ایک سچے اور پکے طالب علم ہیں۔ جس حال میں رہے اور جیسے بھی رہے، ان کے اندر کا انسان زندہ رہا اور انسانوں سے محبت کرتا رہا۔ ان کی آپ بیتی دلچسپ ہے اور پ±ر لطف بھی۔ ا±ن کے خیالات اور ان سے اخذ کردہ نتائج سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کی پسند نا پسند پر بھی ا±نگلی رکھی جاسکتی ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے حلقہ تعارف کے لیے سرمایہ افتخار ہیں، جو ان کو جانتا ہے وہ تو جانتا ہی ہے، جو نہیں جانتا وہ افتخار نامہ پڑھ کر جان لے گا۔ وہ پرواز سے نہ صرف خود تھک کر نہیں گرتے بلکہ دوسروں کو بھی گرنے نہیں دیتے۔ ا±نہیں پڑھیے، ان سے ملئے اور کمر ہمت کس لیجیے، افتخار نامہ آپ کا اعمال نامہ بھی بن سکتا ہے"

"افتخار نامہ" کو محض ایک خود نوشت سمجھنا صحیح نہیں ہوگا، بلکہ یہ ہمارے عہد کی معاشرتی اور اخلاقی روایات کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ مصنف نے زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں کو جس خلوص اور ایمانداری کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ دل کو چھو لینے والا ہے۔ افتخار احمد سندھو کی زندگی کے واقعات، ان کی جدوجہد اور احساسات، قاری کو نہ صرف ان کی شخصیت کے قریب لے آتے ہیں بلکہ معاشرتی مسائل پر غور و فکر کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ ان کے والدین کے ساتھ ان کی محبت اور احترام کا اظہار، اور ان کی شخصیت میں پنہاں عاجزی، کتاب کے مرکزی پہلوو¿ں میں سے ہیں۔ ندیم اپل لکھتے ہیں:
"افتخار نامہ کا سب سے ایمان افروز باب وہ ہے جس میں کتاب کے مصنف نے اپنے قرآن کے سفر کا احوال بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے عہد کے نامور مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن پاک کو تر جمے کے بغیر پڑھنا قرآن پاک کی بے حرمتی ہے۔ اپنی اس کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے افتخار احمد سندھو نے قرآن اکیڈمی قائم کر کے قرآن سے اپنے عشق کا عملی ثبوت دیا ہے۔ کتاب میں جن حساس موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے اگر چہ چند الفاظ میں اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ افتخار نامہ" ہر محب وطن اور سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے جس کی بازگشت آنے والے وقت میں بھی اقتدار کے ایوانوں اور ان کے غلام گردشوں مین گونجتی رہے گی"

افتخار احمد سندھو کی اس خود نوشت کو پڑھ کر قاری کو ان کی زندگی کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ان کی زبان کی سادگی اور واقعات کی حقیقت پسندی نے اس کتاب کو ایک لازوال حیثیت دی ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فاضل مصنف نے افتخار نامہ میں اپنی زندگی کی مشکلات اور جدو جہد کا ذکر کا ہے مگر ساتھ ساتھ انہوں نے وطن عزیز کے بہت سے شعبوں اور اداروں میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی بھی نشاندی کی ہے جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے، اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ افتخار نامہ بات ایک شخص کی نہیں بلکہ یہ داستاں پورے جہاں کی ہے۔ دنیا میں آج بھی لوگ سقراط، بقراط افلاطون اور بوعلی سینا کو اس لیے یاد رکھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے اچھے برے خیالات و نظریات کو اپنے لوگوں کے ساتھ شیئر کیا"۔

"افتخار نامہ" نہ صرف ایک خود نوشت ہے بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ بھی ہے جس میں قاری کو اپنی زندگی اور معاشرت کی جھلک نظر آتی ہے۔ میں افتخار احمد سندھو اور علامہ عبدالستار عاصم کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...