موروثی جمہوریت اور تحریک انصاف فریب سود و زیاں…

حیدر عباس کلیال

 haiderabbasraja556@gmail.com

ہمارے پورے خطے میں سیاست، پیشہ، مذہب، پیر خانے سمیت بہت سے شعبہ ہائے میں موروثیت کی چھاپ بہت گہری ہے حتیٰ کہ جمہوریت جیسا موروثیت کے خلاف وجود میں آنے والا نظام بھی اس خطے میں موروثیت کا ہی مرہون منت ہے اکثر بڑی سیاسی جماعتیں گھرانوں کی ملکیتی کمپنیاں بن چکی ہیں جہاں میرٹ کی کوئی اہمیت نہیں جہاں سیاسی کارکن کا کام صرف صعوبتیں برداشت کرنا یا جلسے جلوسوں، ریلیوں اور مظاہروں میں افرادی قوت مہیا کرنا ہے ان کارکنان کی دہائیوں اور بعض اوقات پشتوں کی قربانیاں، وفائیں اور سیاسی جماعت کے نظریے سے وابستگی جیسی خوبیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں جبکہ لمیٹڈ کمپنی سیاسی جماعت کے مالکان کی اولاد کو صرف اس لیے برتر حیثیت حاصل ہوتی ہے وہ بہر حال کمپنی مالکان ہیں گویا پسر سلطان بود والی کیفیت ہے۔ ایک طرف قربانیاں، صعوبتیں، وفائیں، قید و بند کی سختیاں اور دوسری طرف موروثی استحقاق۔لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ عوام کی اکثریت اب بھی میرٹ کی بجائے موروثیت پہ سمجھوتہ کرتی نظر آتی ہے جو بلاشبہ اپنے پاو¿ں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی تاریخ پہ نظر دوڑائی جائے تو بہت اعلیٰ جمہوری روایات کی حامل سیاسی جماعتیں موروثیت کے اثرات سے پاک ہونے کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھنے میں ناکام رہیں یا پھر بیاثر و غیر فعال ہو گئیں ملک کی سب سے بڑی حقیقی جمہوری سیاسی جماعت جماعت اسلامی اس کی سب سے بڑی مثال ہے اسی طرح ماضی کی مقبول جماعت تحریک استقلال بھی ہے جس کا نام بھی یاداشتوں سے محو ہو چکا، اس کے برعکس موروثی جماعتیں چاہے لسانی، علاقائی، مذہبی ہوں یا وفاقی اپنے وجود برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعت ) تحریک انصاف ( موروثیت کے خلاف بیانیہ لے کر آئی اور طویل جدوجہد کے بعد عوام میں خاصی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن عام تاثر یہی تھا کہ یہ عمران خان کی شخصیت سے جڑی پارٹی ہے جس کا خان کے بعد کوئی مستقبل نہیں اور سچی بات ہے کہ سیاست امور کے قاری ہونے کی حیثیت سے یہ تاثر راقم کو بھی درست نظر آتا تھا لیکن گزشتہ چند ہفتوں حالات پہ نظر دوڑائیں تو حکمران اتحاد کے پیدرپے اور بوکھلاہٹ میں کیے گئے فیصلوں نے ان کی مقبولیت پاتال کی اندھی گہرائیوں میں پہنچا دی ایسا ہی اندھے انتقام پہ مبنی ایک اہم قدم عمران خان کے بھانجے بیرسٹر حسان اللہ خان نیازی کی بیجا گرفتاری، بوگس مقدمات، شہر شہر اور صوبے صوبے میں عدالتوں میں گھمانا شامل ہے، پی ڈی ایم کے ارباب اختیار نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ انجانے میں وہ خود پی ٹی آئی کو ایک وارث تو نہیں دے رہے کئی ایسا تو نہیں کہ یہ خود ہی خان کی میراث (legacy) کو اگلی نسل میں منتقل کر رہے ہوں۔ جو کام خان کے کرنے کا تھا وہ ان کے مخالفین کر رہے ہیں۔ حسان نیازی کو کبھی تحریک انصاف کے مرکزی رہنماو¿ں کے ساتھ نہیں دیکھا گیا نہ کبھی کسی اہم موقع یا مشاورتی اجلاس میں شریک ہوئے غالباً میڈیا پہ ان کا پہلا تعارف لاہور میں وکلاء اور ڈاکٹروں کے تصادم کے موقع پہ وکلاءکی جانب سے تحریک کی صف اول میں شمولیت کی وجہ سے ہوا البتہ وہ مختلف احتجاجی مظاہروں میں کارکنان کے ہمراہ دکھائی دیتے رہے۔لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں ان کے ساتھ حکومتی برتاو¿ یقینی طور پر انھیں ایک بڑے لیڈر کے طور پہ سامنے لانے میں معاون ہو سکتا ہے قید و بند اور بیجا مقدمات کی صحوبتیں ان کیلئے ایسی بٹھی ثابت ہو سکتیں ہیں جہاں سے بہت سے لیڈر کندن بن کر نکلے ہیں۔ حسان نیازی اگر یہ صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد سیاست سے بددل ہوکر میدان چھوڑ جائیں تو بھی اچنبے کی بات نہیں لیکن اگر وہ میدان سیاست میں باقاعدہ اترنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یقین جانیے کہ وہ سکہ بند اور خالص (pure) سیاسی رہنما کے طور پر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے قیادت کے مضبوط امیدوار بن سکتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ ان کے ماموں کی کرشماتی شخصیت جڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی قربانیوں اور مصائب کی داستان بھی ساتھ ہوگی اس کے علاو¿ہ اسمبلی فلور پر لیگی وزراء کی جانب سے ان کی کردار کشی کی کوشش بھی انھیں بینظیر بھٹو جیسا ہمدردانہ عوامی سہارا فراہم کرنے کا باعث بنے گا اسی طرح یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حسان نیازی پاکستان کی نہایت منظم و متحد وکلاء کمیونٹی کے فعال رکن ہیں۔ گویا ایک لیڈر کیلئے مطلوب اکثر لوازمات دستیاب ہیں اب امتحان ان کی ذاتی صلاحیتوں کا ہوگا کہ کیا وہ ننہال کی طرف سے ورثہ میں ملی دلیری اور مزاحمت کے جذبہ پہ کاربند رہ سکیں گے یا پھر ننہال اور ددیال کی کشیدگی سے دل برداشتہ ہو کر کنارہ کشی اختیار کر لیں گے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ موروثی سیاست کے دلدادہ عوام کو ایک نیا رہنما ملنے جا رہا ہے جو فقط موروثیت پہ نہیں بلکہ مرحلہ وار و بتدریج سیاسی ارتقاء کی منازل طے کرتے ہوئے ابھر کر سامنے آ رہا ہے جسے سیاسی وجود کی نمو کیلیے مٹی میں ملایا جا رہا ہے جسکی آبیاری سختی ہائے حالات میں ہونے جا رہی ہے جبکہ زمین ( base) پہلے سے ہی تیار ہے سازگار ماحول بھی بن چکا ہے اب امتحان سیاسی بصیرت کا ہے ویسے غالب امکان ہے کہ رہائی کے بعد یہ میڈیا پہ چھائے نظر آئیں گے گو کہ اس حوالے سے حتمی طور پہ کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم مستقل کے منظر نامے پہ کچھ پرچھائیاں نظر آ رہی ہیں!!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...