حکیم راحت نسیم سوہدروی
علی گڑھ کی تاریخ کو ہمیشہ یہ امتیازی خصوصیت اور برتری حاصل رہے گی کہ اسکے فیضان اور دامن سے ایسے ایسے دیدہ ور پیدا ہوئے جن پر ہماری قومی تاریخ کو ناز رہے گا جو ہماری تاریخ آزادی کا عنوان جلی ہیں ان مایہ ناز شخصیات میں ایک بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ہیں- بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان اسلامیان برصغیر کے ان جلیل القدر راھنماوں میں سے تھے جن کی تمام زندگی اسلام کی سربلندی اور فرنگی حکمرانوں سے آزادی کےلئے بھر پور جدوجہد میں گزری اور اس حوالے سے بے مثال قربانیاں دہیں یہاں تک کہ انکی زندگی کا ھر تیسرا دن جیل میں گزرا اور اس زمانے میں انکے اخبار زمیندار کی ایک لاکھ سے زیادہ کی ضمانتیں ضبط ہوئیں مگر انکے پائے استقلال میں کوئی لغرش نہ آئی بلکہ ھر مشکل کے بعد زیادہ سرگرم عمل ہوئے مولانا جس دور میں غلامی کی تاریک رات میں آزادی کے حسین خواب کی تعبیر کےلئے نکل کھڑے ہوئے اس زمانے میں پورا گاﺅں ایک لال پگڑی والے سپاہی سے لرزہ برانڈ ہوجاتا تھا مگر انہوں نے قوم میں بیداری پیدا کرکے آزادی کےلئے تیار کردیا اور وہ ان خوش قسمت افراد میں سے ہیں جہنوں نے اپنی زندگی میں آزاد ملک کی فضاوں میں سانس لیا اور آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے انکے قلم کی کاٹ کو مصطفی کمال کی تلوار سے تشبیہ دی اور قائد اعظم نے بادشاہی مسجد لاھور میں خطاب کرتے ھوئے کھا کہ اگر ظفر علی جیسے دو چار افراد اور مل جائیں تو غلامی کی زنجیریں بہت جلد کٹ جائیں- بقول مولانا صلاح الدین احمد کہ ہماری تحریک آزادی کا تذکرہ مولانا ظفر علی خان کے نام اور کام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ھو سکتا۔
مولانا ظفر علی خان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا- وہ قادر الکلام شاعر، بے بدل ادیب، بہترین مترجم، بے باک خطیب، نڈر صحافی، مقبول عوامی راہمنا سب سے بڑھ کر پکے اور سچے مسلمان تھے- زندگی کے جس شعبہ میں کام کیا یا جس سرگرمی میں حصہ لیا اس کا مقصد واحد اسلام کی سربلندی، ملت اسلامیہ کی نشاستہ ثانیہ اور فرنگی سامراج سے آزادی رہا- عشق رسول ان کا خاص وصف تھا اور سرکاردوجہاں سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں۔
ہوتا ہے جہاں نام رسول خدا بلند
ان محفلوں کا مجھ کو نمائندہ کردیا
بنا کر سرکاردوجھاں کا مجھے غلام
میرا بھی نام تا ابد زندہ کردیا
ایک اور جگہ فرمایا
اتنی ہی آرزو ھے میرے دل میں اے خدا
اسلام کو زمانے میں دیکھو میں سر بلند
دنیا میں سر نگوں علم مصطفی نہ ہو
ھم خواہ ذلیل ہوں یا ارجمند
مولانا ظفر علی خان کو اسلامی شعائر و روایات سے گہرا شغف تھا نہ صرف ان پر عمل پیرا ہوتے بلکہ کسی حال میں انکی بے حرمتی یا توہین برداشت نہ کرتے اس حوالے سے انکی زندگی کے چند واقعات پیش ہیں-
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مولانا سری نگر چلے گئے تھے جہاں انکے والد مولوی سراج الدین محکمہ ڈاک میں ملازم تھے ایک روز نوجوان ظفر علی خان ڈاکخانہ کے احاطہ میں دھوپ سیک رہے تھے ایک انگریز فوجی وردی میں آیا اور ظفر علی خان کو اشارہ سے کہنے لگا کہ اولڑکے ! ادھر آﺅ-گھوڑے کی لگام پکڑو - مگر ظفر علی خان اسکی آواز پر کان نہ دھرا جس پر انگریز بہت سیخ پا ہوا اور دوبارہ بولااو لڑکے تم نے سنا نھیں ادھر آﺅ اور گھوڑے کی باگ پکڑو - ظفر علی خان نے انگریز کو غور سے دیکھا اور سنجیدگی سے جواب دیا‘ جناب میں آپ کا ملازم نھیں ھوں۔ انگریز کسی ہندوستانی کی زبان سے یہ جواب سن کر سخت غصہ میں آیا اور انگریز ریذیڈنٹ گورنر سے شکایت کی کہ مولوی سراج الدین کو ملازمت سے برخاست کردیں مگر مولوی سراج الدین کی کاوشوں سے مسئلہ حل ھوگیا اور یوں ملازمت بچ گئی مگر نوجوان ظفر علی خان میں انقلابی سوچ پیدا کردی اور فرنگی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا مادہ پیدا ہوگیا- ظفر علی خان ملازمت کا ارادہ ترک کے مزید تعلیم کےلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے جہاں علمی ادبی اور ملی فضا میں انکی فطری استعداد سامنے آنے لگی -علی گڑھ کی ایک تقریب میں سرسید احمد خان نے کھا کہ ظفر علی ان نوجوانوں میں سے ہیں جنہوں نے آگے چل کر ملک و ملت کی ذمہ داریاں سنبھالنی ھیں - میں ان میں ایک روشن مستقبل دیکھ رہا ہوں۔
1910 میں ایڈورڈ ھفتم کے انتقال پر شاہی مسجد لاھور میں تعزیتی جلسہ ھوا جس شاہ ایڈورڈ ھفتم کی مغفرت کےلئے دعا کی اپیل کی گئی تو نوجوان ظفر علی آٹھ کھڑا ہوا کہ ایک غیر مسلم کےلئے دعا مغفرت جائز نہیں ہے۔ اس طرح 1911جارج پنجم رسم تاج پوشی کےلئے دھلی اے تو بڑے بڑے علما اور مشائخ استقبالیہ قطار میں کھڑے تھے اور جھروکوں سے درشن کے منتظر تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ھوگیا۔ جارج پنجم کی سواری میں تاخیر ہورہی تھی نوجوان ظفر علی اگے بڑھے اور لال قلعہ پر اذان دیکر قلعہ کے سبزہ زار پر کوٹ بچھا کر نماز شروع کرکے اللہ کی واحدانیت وکبریت کا اظہار کرکے دعوت دی کہ حقیقی خدا کے سامنے جھکو - مولانا ظفر علی خان آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے مگر دوسرے مسلمان رہنماوں کی طرح کانگریس کے پلیٹ فارم سے آزادی وطن کی جنگ لڑ رہے تھے مگر کانگریس کے اجلاس کراچی میں جب نماز عصر کےلئے اجلاس ملتوی نہ کیا گیا تویہ کھڑے ھوئے اور کانگریس سے الگ ھو نے کا اعلان کردیا اور فرمایا۔
گنبد کا نگریس سے آرہی ہے یہ صدا
نیشنلسٹ ھے وہی جسے ضد ہو نماز سے
پونا میں کانگریس کا اجلاس تھا۔ اجلاس کے بعد آغا محل تالاب پر گاندھی اور مولانا موجود تھے کہ گاندھی نے کہا کس قدر شفاف پانی ھے کہ اس میں شیواجی کی تصویر صاف نظر آرہی ھے۔ مولانا نے اسی وقت کہا کہ مجھے اورنگزیب کا جوتا بھی صاف نظر آرھا ہے جس پر گاندھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
قادیانیت کے خلاف جہاد کےلئے عوام اور علما کو بیدار کرنے کےلئے ان کا کردار سب سے نمایاں ھے۔ قادنیوں کو اقلیت قرار دینے کی تجویز سب سے پہلے انھوں نے پیش کی وہ انہیں انگریز خود کاشتہ پودا قرار دیتے انکی نظموں کی ایک مکمل کتاب ارمغان قادیان بھی ھے۔
میرے والد ماجد حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم کو مولانا کو قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے وہ بتایا کرتے تھے کہ مولانا کا معمول تھا کہ رات کے پچھلے پھر بیدار ھوتے نماز تہجدادا کرکے تلاوت کرتے پھر نماز فجر ادا کرکے لمبی اور تیز تیز سیر کرتے واپسی پر سادہ اور پنجاب کا روائتی ناشتہ کرتے پھر دن کے معمولات کا آغاز ہوجاتا- مولانا کی صلاحتیوں کا اندازہ اس واقعہ سے ھو جاتا ھے کہ لاھور میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ تھا علامہ اقبال عمرانیات پر مقالہ پیش کرنے کھڑے ہوئے تو کہا کہ اپنا مقالہ انگریزی میں پیش کروں گا کیونکہ فلسفایانہ اصطلاحات کے باعث اردو میں سمجھا نہ سکوں گا مولانا کھڑے ہوئے اور کہا کہ اردو اتنی بے مایہ زبان نہیں ھے مشکل سے مشکل اصطلاحات بھی پیش کی جاسکتی ہیں علامہ نے فرما یا بے شک مولانا جیسے فاضل کےلئے مشکل نہیں مگر میں اپنی مشکل بتا رھا ھوں اس پر شیخ عبدالقادر نے کہا کہ مولانا اور پطرس نوٹس لیں گے بعد میں خاص نکات اردو میں پیش کردیں- علامہ نے انگلش میں مقالہ پیش کیا مولانا نے کوئی نوٹس نہ لئے پطرس نوٹس لیتے گئے جب علامہ مقالہ پیش کرچکے تو مولانا اٹھے اور مقالہ کا مفہوم اردو میں پیش کردیا جو الفاظ اور تراکیب استعمال کیں وہ علامہ کے مقالہ کے عین مطابق تھیں۔ جب ظفر علی بیان کرچکے تو علامہ نے فرما یا کہ 98 فیصد میرے خیالات کی ترجمانی کا حق ادا ہوا ھے۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا خرابی صحت کے باعث عملی سرگرمیوں سے الگ ھوگئے- آخری تقریر جامعہ پنجاب میں اردو کانفرنس میں کی جہاں اواز مدھم ھونے پر چند طلبہ نے آوازیں کسے جس پر مولانا نے فرما یا کبھی دنیا تماشہ تھی اور ھم تماشائی آج ھم تماشہ ھیں اور دنیا تماشائی- جہاں چڑھتے سورج کی پوجا ھو وہاں ڈوبتے سورج کو کون پوجتا ھ۔ے مولانا کا یہ کہنا تھا کہ کانفرنس میں موجود بڑے بڑے دانشورآبدیدہ ھوگئے - اسکے بعد کچھ عرصہ مری اور پھر کرم آباد رہے -میرے والد بتاتے تھے کہ وہ ستمبر 56 میں کرم اباد ملنے گئے تو قوت گویائی مکمل سلب ھو چکی تھی - پہچان نہیں سکتے تھے البتہ اواز سے جان جاتے تھے- بالآخر یہ مجاھد حریت اور افتاب 27 نومبر کو غروب ھوگیا اور کرم اباد ( وزیرآباد) اپنے والد کے پہلو میں سپردخاک ھوئے۔