سانحہ پارا چنار

رخسانہ سحر

سانحہ پارا چنار کا ذکر کرتے ہوئے دل دکھ اور غم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ سانحہ نہ صرف ایک المناک واقعہ تھا بلکہ اس نے ہمارے معاشرتی اور قومی ڈھانچے میں موجود کئی خامیوں کو بے نقاب کر دیا۔ پارا چنار، جو ہمیشہ سے اپنی خوبصورتی اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے مشہور رہا ہے، گزشتہ چند دہائیوں سے دہشت گردی اور فرقہ واریت کا شکار رہا ہے۔پارا چنار میں ہونے والے حالیہ سانحہ نے کئی معصوم جانوں کو نگل لیا۔ بازار، جہاں لوگ روزمرہ کی ضروریات خریدنے آتے ہیں، موت کے مناظر پیش کرنے لگا۔ یہ حملہ نہ صرف انسانی زندگیوں پر وار تھا بلکہ علاقے کی معیشت، امن اور بھائی چارے پر بھی ایک کاری ضرب ثابت ہوا۔یہ سوال بارہا اٹھایا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیشمار کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود، ایسے واقعات ہماری سیکورٹی اور انٹیلیجنس نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں۔پارا چنار میں فرقہ وارانہ جھگڑے بھی اس سانحہ کے پس منظر میں اہم ہیں۔ یہ مسئلہ محض مقامی نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے، جسے دانشمندی اور اتحاد کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مذہبی تفریق کا فائدہ صرف ان عناصر کو ہوتا ہے جو امن کے دشمن ہیں۔ایسے واقعات میں عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور ایسے عناصر کو مسترد کرنا ہوگا جو نفرت اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔سانحہ پارا چنار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امن اور بھائی چارہ صرف باتوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرے اور عوام کو انصاف فراہم کرے۔ ساتھ ہی، ہمیں اپنی قوم کے ہر فرد کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔یہ سانحہ ہماری قومی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے، لیکن اگر ہم اس سے سبق سیکھیں اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکمت عملی وضع کریں تو شاید ہم اپنے شہیدوں کے خون کا حق ادا کر سکیں۔سانحہ پارا چنار محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک کاری ضرب ہے۔ یہ المناک واقعہ ایک ایسے خطے میں پیش آیا جو پہلے ہی مشکلات، محرومیوں، اور مسلسل نظراندازی کا شکار ہے۔ پارا چنار کی سرزمین، جو اپنی فطری خوبصورتی اور ثقافتی تنوع کے لیے مشہور ہے، اس سانحے کے بعد ایک بار پھر خون اور آنسوو¿ں سے تر ہوگئی۔پارا چنار کے معصوم عوام، جن کی زندگیاں پہلے ہی دہشت گردی اور تنازعات کے سائے میں گزرتی ہیں، اس سانحے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں کے بچے، خواتین، اور بزرگ جو امن اور خوشحالی کے خواب دیکھتے ہیں، بار بار ایسے واقعات کے بعد مایوسی اور خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس واقعے نے ہر حساس دل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کب تک ان المیوں کو سہتے رہیں گے؟سانحہ پارا چنار ایک بار پھر اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ریاستی ادارے ان علاقوں کی حفاظت اور ان کی بہتری کے لیے مو¿ثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہ اور کمزور سکیورٹی نظام ان دہشت گرد عناصر کو مزید مضبوط کرتا ہے جو معصوم عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔اس واقعے کے بعد متاثرین کی بروقت داد رسی نہ ہونا اور اعلیٰ حکام کی بیحسی نے عوامی غم و غصے کو مزید بھڑکا دیا۔پارا چنار کئی برسوں سے فرقہ وارانہ منافرت کا شکار ہے، جو نہ صرف مقامی تنازعات کو ہوا دیتی ہے بلکہ پورے ملک کی یکجہتی کے لیے خطرہ ہے۔ اس سانحے میں فرقہ وارانہ تشدد کا عنصر نمایاں تھا، جس نے اس بات کو واضح کیا کہ ان مسائل کو مذہبی اور سیاسی قیادت کے درمیان بہتر ہم آہنگی کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔اس اندھیرے میں ایک امید کی کرن عوام کی جانب سے مظاہروں اور اتحاد کی صورت میں نظر آئی۔ پارا چنار کے عوام نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ظلم سہنے کے بجائے، اب لوگ انصاف اور مساوات کے لیے کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔یہ جذبہ ثابت کرتا ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، عوام میں اب شعور اور بیداری پیدا ہو رہی ہے۔پارا چنار کے سانحے نے ہمیں یاد دلایا کہ امن، انصاف، اور مساوات صرف نعروں سے ممکن نہیں بلکہ ان کے لیے عملی کوششیں اور حقیقی اقدامات درکار ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس خطے کو مزید نظرانداز نہ کرے، وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کرے اور عوام کو تحفظ فراہم کرے۔اسی طرح، معاشرے کو چاہیے کہ مذہبی ہم آہنگی اور باہمی احترام کو فروغ دے تاکہ فرقہ واریت کے زہر کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔یہ سانحہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں مستقبل میں اور کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...