اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے۔ 6 صفحات کے نوٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل سیاسی ٹرائل کی کلاسیک مثال ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں تفتیش کی منظوری غیر قانونی طور پر دی گئی، سیاسی ٹرائل میں من پسند نتائج کے لیے غیر شفاف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ سیاسی ٹرائل میں عموماً سابق اتحادیوں کے ہی بیانات لے کر عموماً گواہ بنایا جاتا ہے۔ بھٹو نے خود کہا تھا آئین کی چھتری تلے ہی عدلیہ آزاد رہ سکتی ہے اور کہا تھا صحرا میں پھول نہیں کھل سکتے۔ آمرانہ دور میں ججوں کو یاد رکھنا چاہیے ان کی اصل طاقت عہدے پر فائز رہنا نہیں آزادی کو قائم رکھنا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو کیس میں جرات مندی سے اختلاف کیا۔ دراب پٹیل نے ضیاء کے جاری کردہ عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ سمجھوتہ کر لینے کی میراث چھوڑنے کے بجائے عہدہ کھو دینا ایک چھوٹی سی قربانی ہے، جج کی بہادری کا اندازہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے، مداخلت کے خلاف ثابت قدم رہنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ آمرانہ مداخلتوں کا مقابلہ کرنے میں تاخیر قانون کی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے، دراندازیوں کی فوری مزاحمت اور اصلاح کی جانی چاہیے اور عدلیہ کا کردار انصاف کا دفاع کرنا ہے۔