پاکستان ٹیلی وژن اپنے قیام سے آج تک ملک وقوم کی یکجہتی اور اس میں پائی جانیوالی مختلف زبان و ثقافت کے تشخص کی علامت رہاہے ۔ ملک میں پہلے ٹیلی وژن کا26 نومبر 1964ء کو لاہور سے اس کی نشریات کے ساتھ آغازہوا اور یوں پی ٹی وی کو قائم ہوئے60 برس مکمل ہو گئے۔ مشرقی پاکستان میں پی ٹی وی کا دوسرا سنٹر ڈھاکہ میں قائم کیا گیا اور وہاں سے 1965ء میں اس کی ٹرانسمیشن کا آغاز کیا گیا۔یہ دور براہِ راست پروگرام نشر کرنے کا تھا۔1965ء ہی میں راولپنڈی /اسلام آباد میں ملک کا تیسرا ٹیلی وژن سنٹر قائم ہوا اور 1966ء میں کراچی پی ٹی وی سنٹرسے بھی پروگرام نشر ہونے لگے ۔بعد ازاں 1974ء میں پشاور اور کوئٹہ سنٹر ز کا بھی آغاز ہوا۔1961ء میں پاکستان کے معروف صنعتکارسیّد واجد علی نے Niponالیکٹرک کمپنی کے ساتھ ایک مشترکہ معاہدہ کیا اور انجینئر عبدالرحمن کوٹی وی پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔1961ء میں NEC کے اشتراک سے ٹیسٹ ٹرانسمیشن کی سیریز ٹیسٹ کی گئی جس کے بعد صدر ایوب خان نے انجینئر عبدالرحمن کی وزارتِ اطلاعات کے تحت تقرری کر دی ۔اس طرح سرکاری شعبے میں انہوں نے ملک میں پہلے ٹی وی نیٹ ورک کے قیام کے حوالے سے کام کاآغاز کیا۔ملک میںRGAکے بنے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سیٹ اپنی ساخت کے اعتبار سے سکرین سمیت کسی میز کی طرح لگے دکھائی دیتے تھے۔تب ریموٹ کا کوئی تصور نہیں تھا اور ٹی وی کی نشریات انٹینا کے ذریعے ہی دیکھی جاسکتی تھیں۔1976ء میں پی ٹی وی نے اپنا رنگ بدلا اور اس کی نشریات بھی رنگین ہوگئیں اور بڑے ڈبے کی جگہ مختلف سائز کے رنگین ٹی وی گھر کا فرد بن گئے۔ٹی وی کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور اس کے مختلف پروگرامز اور ڈراموں وغیرہ کے لیے با صلاحیت فن کاروں کی اہمیت بھی بڑھ گئی۔ ٹی وی کے مختلف شعبوں کی تعلیم وتربیت کیلئے 1987ء میں پاکستان ٹیلی ویژن اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا۔
80ء کی دہائی تک پاکستان میں ٹی وی کی مقبولیت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔نشریات کا دورانیہ بھی بڑھ چکا تھا۔اب براہِ راست پروگراموں کی بجائے پروگرام اور ڈرامے ریکارڈ کر کے نشر کرنے کی سہولت بھی میسر تھی جس سے ٹی وی پروڈکشن کی کوالٹی میں بھی بہت حد تک نکھار آچکا تھااور پی ٹی وی کا ڈراما اپنی مستندسا کھ بنا چکا تھا۔80ء کی دہائی میں ہی پی ٹی وی پر صبح کی نشریات کا باقا عدہ آغاز ہوا۔جنرل ضیاء الحق کے طویل اقتدار کے خاتمے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد 1988ء میں شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کے تحت پہلا سیمی گورنمنٹ ٹی وی نیٹ ورک پیپلز ٹیلی ویژن نیٹ ورک (PTN)کے نام سے شروع ہوا جس کا نام بعد ازاں STN(شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک)رکھ دیا گیا۔اسلام آباد کے بعد ایس ٹی این نے کراچی اور لاہور سے بھی اپنی نشریات کا آغاز کیا۔1990ء کے دہائی میں ملک بھر سے اس کی نشریات شروع ہوگئیں۔1990ء میں STNکے ایک پرائیویٹ کمپنی انٹر فلو کے ساتھ معاہدے کے بعد ملک میں پہلے پرائیویٹ ٹی وی چینل ''این ٹی ایم''(نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ)کا آغاز ہوا۔اوراسی چینل کے ذریعے ملک میں پہلی مرتبہ سی این این اور بی بی سی کی نشریات بھی دیکھی جانے لگیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن نے بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں تک اپنے پروگرامز، ڈرامے اور دیگر نشریات پہنچانے کے لیے 1992ء میں ایک اہم قدم اْٹھا یا اور ''پی ٹی وی ٹو'' کے نام سے پہلے سیٹلائٹ چینل کا آغاز کیا گیا۔بعد ازاں 1998ء میں اس کا نام پی ٹی وی ورلڈ رکھ دیا گیا۔1998ء میں این ٹی ایم مالی خسارے کے باعث بند ہو گیااور اس کے ساتھ ہی این ٹی این بھی بند ہو گیا۔1999ء میں پی ٹی وی اور ایس ٹی این نے مل کر ''چینل تھری'' کے نام سے نئے چینل کا آغاز کیا۔ جس کی باقاعدہ نشریات کا آغاز 2001ء میں ہوا 2002ء میں پرویز مشرف حکومت نے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو کام کرنے کی اجازت دی۔اس میں نجی چینلز کو اپنی خبریں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام پیش کرنے کی بھی اجازت شامل تھی ورنہ اس سے قبل واحد نجی چینل این ٹی ایم کو بالخصوص خبرنامے اور کرنٹ افیئرز پر پروگرام کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔''انڈس وژن''کو پاکستان کا پہلا پرائیویٹ سیٹلائٹ چینل ہونے کے اعزاز حاصل ہے۔''اے آر وائی ڈیجیٹل ''''جیو'' ''ہم''اور دیگر بعد میں شروع ہوئے۔2005ء میں پی ٹی وی اور ایس ٹی این کا مشترکہ چینل تھری بند ہو گیا۔اے ٹی وی پاکستان کا واحد چینل تھا جس کی نشریات سیٹلائٹ اور زمینی دونوں سطح سے آن ایئر کی گئیں۔2007ء میں پی ٹی وی کو ''پی ٹی وی ہوم'' کا نام دے دیا گیا اور ''پی ٹی وی ورلڈ''کو بند کر دیا گیا تاہم 2012-13ء میں ''پی ٹی وی ورلڈ''کو صرف انگریزی اور سیٹلائٹ چینل بنا کر دوبارہ شروع کر دیا گیا۔2007میں ''پی ٹی وی نیوز''کا آغاز ہوا۔اس کے بعد ''پی ٹی وی سپورٹس''شروع کی گیا۔2009ء میں امریکا اور یورپ کے ناظرین کے لیے پی ٹی وی گلوبل شروع کیا گیا۔پاکستان میں 2003ء میں ٹی وی کی دنیا میں انقلاب آیا۔ پرائیویٹ چینلز نے ریاستی ٹی وی کی اجارہ داری ختم کر دی۔2003ء میں ہی میر ظفر اللہ خان جمالی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں 66پرائیویٹ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کمپینزکو لائسنس جاری کیے گئے۔ٹی وی جو کبھی اپنے ناظرین کے لیے اطلاعات کی فراہمی اور تفریح کا ذریعہ تھا اب ایک ایسی ''بْری لت'' بن چکی ہے جس کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ ''چھٹتی نہیں کا فرمنہ کو لگی ہوئی'' تو غلط نہ ہوگا۔ٹی وی کا کام ناظرین تک درست اطلاعات کی فراہمی اور تفریح فراہم کرنا ہے۔نہ کہ اطلاعات کے نام پر ملک میں غیر یقینی صورتِ حالات پیدا کرنا۔حکومتیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹی اوربڑی سکرین کی طاقت کو بھر پور اور موئثر انداز میں بروئے کار لاتی ہیں۔مگر بد قسمتی سے پاکستان میں یہ دونوں میڈیم شتر بے مہار اور تمام تر اخلاقی و معاشرتی پابندیوں سے آزاد ہی نظر آتے ہیں۔پاکستان میں ٹی وی چینلز کی موجودہ روش کو دیکھ کر یہ قطعی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ چھوٹی سکرین معاشرے کی اصلاح اور تعلیم وتربیت میں کسی قسم کا کردار ادا کر رہی ہے۔فلم انڈسٹری بھی طویل عرصہ بعد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے نتیجے میںمعاشرے کی اصلاح ہمارے نشریاتی اداروںکی اہم ذمہ داری ہے جسے انہیں احسن طریقے سے نبھانا ہوگا۔
پی ٹی وی پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے۔اس نے ہمیشہ سے پاکستان کے اتار چڑھاؤ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈرامے،پروگرام،شو اور مشاعرے پیش کیے ہیں۔ترکی کا شمار پاکستان کے مخلص ترین دوستوں میں ہوتا ہے۔ترکی نے پر مشکل مرحلے میں پاکستان کی ہر ممکن مدد کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی وی نے ترکی کے ڈراموں کو بھی ٹیلی کاسٹ کیا جس کی وجہ سے ناظرین کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کی آمدنی میں بھی کافی اضافہ ہوا۔2023ء سے پی ٹی وی کے تمام مراکز سے پی ٹی وی نیشنل سے 6گھنٹے کا لائیو پروگرام بھی جاری ہے جبکہ پی ٹی وی سپورٹس نے کرکٹ ورلڈ کپ 2023ء کوبھی بڑے خوبصورت انداز میں لائیو نشریات شروع کی تھی۔اس حوالے سے پاکستان بھر کے تمام ٹیلی ویژن کارپوریشن کے جنرل منیجرز پی ٹی وی اور اْن کا پوراسٹاف مبارک با د کے مستحق ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن ہمیشہ اپنے ناظرین کے لیے منفرد، خوبصورت اور معیاری پروگرام پیش کرتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں انٹرٹینمنٹ کیلئے متعدد چینلز ہونے کے باوجود ناظرین پی ٹی وی کو ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ پی ٹی وی اپنے ناظرین کے لیے پیار،محبت،معاشرتی اقدار اور خوبصورت روایات پر مبنی شو''کھوئے ہوؤں کی جستجو''بھی ایک اہم پیشکش ہے۔اس شو کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا ہنستے مسکراتے اور کھکھلاتے انداز میں ناظرین کے دلوں کو چھو جانا ہے۔جس سے ان میں خوشی اور سکون کی لہر دوڑجاتی ہے اور یہ ہی موجودہ نفسا نفسی کے دور میں ہمارے جیسے معاشروں میں انسان کی سب سے بڑی جستجو اور تلاش ہے۔
وفاق وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے جب سے پی ٹی وی کاچارج سنبھالا ہوا ہے پی ٹی وی کے کرنٹ افیئرزاور نیوز کے پروگراموں میں کافی بہتری آئی ہے اور ان کی کوششوں کے علاوہ موجودہ تعینات ہونیوالی انفارمیشن منسٹر و سیکرٹری انفارمیشن اور ایم ڈی پی ٹی وی میڈم عنبرین جان و دیگر حکام بالا کی کوششوں سے پی ٹی وی روز بروزترقی کی طرف گامزن ہے جبکہ پشاور سنٹر اپنے کم وسائل کی وجہ سے 8گھنٹے کی پشتواور ہندکو ٹرانسمیشن دے رہی ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ سنٹر چترالی زبان میں روزانہ خبریں بھی نشررہا ہے اور دستار چترال کے نام سے ہر ہفتے کا ایک پروگرام بھی نشرکرتا ہے جو کہ ایک بہت اچھا اقدام ہے۔ اگر ان پروگراموں کو مزید وقت دیا جائے تو ان پروگراموں میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ پی ٹی وی پشاور نیشنل سنٹر سے روزانہ 135 منٹ لائیو پروگرام نشر ہوتے ہیں اور اسی طرح حالات حاضرہ کے مختلف پروگرام روزانہ 95 منٹ لائیو نشرہوتے ہیں۔اس کے علاوہ جی ایم پشاور سنٹر ابراہیم کمال نے جب سے چارج سنبھالا ہے تب سے پی ٹی وی مارکیٹنگ کو بھی فوکس کیا ہوا ہے جس میں مزید بہتری آئی ہے جبکہ 2 سال پہلے پی ٹی وی نیشنل کی مارکیٹنگ زیرو تھی۔ اب اس مارکیٹنگ میں بہتری آنی شروع ہوگئی ہے اور تقریباً گذشتہ2مہینے میں 10 لاکھ روپے سے زیادہ مارکیٹنگ ہوچکی ہے۔ ہم پی ٹی وی کو اپنے 60 ویں سالگرہ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
پاکستان ٹیلی ویڑن کار پوریشن
Nov 27, 2024