لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ سے 13 ماہ سے جاری جھڑپیں روکنے کے حوالے سے کیے جانے والے جنگ بندی معاہدے پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے حامی بھی ان سے شدید خفا ہیں۔اسرائیل اور حزب اللہ نے امریکا کی زیر قیادت جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت اسرائیلی فورسز 60 روز میں جنوبی لبنان سے واپس جائیں گی جبکہ حزب اللہ بھی دریائے لطانی سے اپنے جنگو اور اسلحے کو ہٹا کر جنوبی لبنان کا قبضہ لبنانی فورسز کے حوالے کرے گا۔حزب اللہ کے ساتھ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ہم نے زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے حزب اللہ کو دہاہیوں پیچھے دھکیل دیا ہے، حزب اللہ کے پاس اب وہ طاقت نہیں رہی جو پہلے تھی۔نیتن یاہو کا کہنا تھا حزب اللہ سے جنگ بندی معاہدے کے بعد اب ہمارا تمام تر فوکس ایرانی خطرے سے نمٹنے پر ہو گا تاہم اگر حزب اللہ نے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی تو انہیں بھی بھرپور جواب دیا جائے گا۔تاہم اسرائیل کی حزب اللہ کے ساتھ ڈیل کے بعد کیے جانے والے سروے کے مطابق جنگ کے باعث شمالی اسرائیل سے بے گھر ہونے والے 80 فیصد تعداد جو نیتن یاہو کے حامی تھے، انہوں نے حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کو غلط قرار دیتے ہوئے غصے کا اظہار کیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اگر ملکی سطح پر بات کی جائے تو حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر عوام کی رائے منقسم نظر آئی، 37 فیصد نے جنگ بندی معاہدے کی حمایت کی جبکہ 32 فیصد نے اسے غلط کہا اور 31 فیصد اس حوالے سے خاموش رہے۔جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے اسرائیلی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو جانا چاہتے تھے اور اس کے لیے سیز فائز ضروری تھا لیکن لبنانی شہریوں کی واپسی سے انہیں شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ایک اسرائیلی شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ جنگ بندی معاہدے سے واحد امید یہ ہے کہ حزب اللہ اب ان دیہاتوں پر حملہ نہیں کرے گی اور اپنا نیا نیٹ ورک تیار کرے گی۔ایک اور اسرائیلی شہری کا کہنا تھا کہ سیز فائر معاہدے کے باوجود سب سے بڑا خطرہ سکیورٹی کا ہے، یہ دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں رہ رہے ہیں، ہمیں نا تو امریکیوں اور نا ہی لبنانی فورسز پر بھروسہ ہے کہ وہ سرحد پر امن و امان قائم کریں گے، ہمیں صرف اپنی فوج (صیہونی فوج) پر بھروسہ ہے، اگر اسرائیلی فورسز یہاں کا کنٹرول نہیں سنبھالتیں تو یہ بہت ہی مشکل ہے کہ شہری واپس جائیں۔