ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا، ایران لبنان میں جنگ بندی کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے درمیان بدھ کی صبح سے جنگ بندی کا نفاذ عمل میں آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ فریقین نے امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کو قبول کر لیا۔جنگ بندی کے نفاذ کے بعد بیروت کے طول و عرض میں گولیوں کی آوازیں سنی گئیں۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ آیا یہ فائرنگ جنگ بندی کی خوشی میں جشن کے طور پر کی گئی تھی کیونکہ گولیوں کا استعمال ان رہائشیوں کو خبردار کرنے کے لیے بھی ہوتا رہا ہے جنہیں اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری کردہ انخلاء کی وارننگ کا علم نہ ہو رائٹرز کے عینی شاہدین کے مطابق جنگ بندی کے بعد حالیہ مہینوں میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں جنوبی لبنان سے جو لوگ بے گھر ہوئے، انہیں لے جانے والی گاڑیوں کا سلسلہ علاقے کی طرف واپس آنا شروع ہو گیا۔جنگ بندی میں اسرائیل اور لبنان کی سرحد کے پار ہونے والا تنازعہ ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کی طرف سے ایک کے مقابلے میں 10 ووٹوں سے معاہدے کی منظوری کے فوراً بعد بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں منگل کو بات کی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو اور لبنان کے نگراں وزیرِ اعظم نجیب میقاتی سے بات کی تھی اور یہ کہ لڑائی مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے ختم ہو جائے گی۔بائیڈن نے کہا ، "یہ دشمنی کے مستقل خاتمے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ حزب اللہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا جو باقی بچا ہے، اسے دوبارہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔"بائیڈن نے کہا، اسرائیل بتدریج 60 دنوں میں اپنی افواج ہٹا لے گا جبکہ لبنان کی فوج اسرائیل کے ساتھ اپنی سرحد کے قریب علاقے کا کنٹرول سنبھال لے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حزب اللہ وہاں اپنا بنیادی ڈھانچہ دوبارہ تعمیر نہ کرے۔انہوں نے کہا، "دونوں طرف کے شہری جلد ہی محفوظ طریقے سے اپنی برادریوں میں واپس جا سکیں گے۔"حزب اللہ نے باضابطہ طور پر جنگ بندی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن سینئر عہدیدار حسن فضل اللہ نے لبنان کے الجدید ٹی وی کو بتایا، اگرچہ گروپ لبنانی ریاست کے اختیارات میں توسیع کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ جنگ سے مضبوط تر ہو کر نکلے گا۔فضل اللہ نے کہا جو لبنان کی پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں، "ہزاروں لوگ مزاحمت میں شامل ہوں گے۔۔۔ مزاحمت کو غیر مسلح کرنا ایک اسرائیلی تجویز تھی جو ناکام ہو گئی۔"فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس معاہدے کو "امریکہ کے قریبی تعاون سے اسرائیلی اور لبنانی حکام کے ساتھ کئی مہینوں سے جاری کوششوں کا نتیجہ" قرار دیا۔لبنان کے میقاتی نے ایک بیان میں اس معاہدے کا خیرمقدم کیا۔ وزیرِ خارجہ عبداللہ بو حبیب نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے انخلاء کے بعد جنوبی لبنان میں لبنانی فوج کے کم از کم 5000 فوجی تعینات ہوں گے۔نیتن یاہو نے کہا، ہم جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں لیکن حزب اللہ کی طرف سے کسی بھی خلاف ورزی کا بھرپور جواب دیں گے۔انہوں نے کہا، جنگ بندی سے اسرائیل کے لیے ایران کی طرف سے خطرے پر توجہ مرکوز کرنے، فوج کو آرام کرنے اور رسد بھرنے کا موقع فراہم کرے گی اور غزہ میں حماس کو تنہا کر دے گی۔نیتن یاہو نے کہا، "امریکہ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں ہم کارروائی کی مکمل فوجی آزادی برقرار رکھتے ہیں۔ اگر حزب اللہ نے معاہدے کی خلاف ورزی یا دوبارہ مسلح ہونے کی کوشش کی تو ہم فیصلہ کن حملہ کریں گے۔''انہوں نے مزید کہا کہ حماس کی اتحادی حزب اللہ تنازع کے آغاز کے مقابلے میں کافی کمزور تھی۔انہوں نے کہا، "ہم نے اسے کئی عشرے پیچھے کر دیا ہے، اس کے سرکردہ رہنماؤں کو ختم اور اس کے بیشتر راکٹ اور میزائل تباہ کر دیئے ہیں، ہزاروں مزاحمت کاروں کو بے اثر اور اپنی سرحد کے قریب دہشت گردی کے کئی سالوں کے انفراسٹرکچر کو ختم کر دیا ہے۔"ایک سینئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور فرانس یونی فِل امن فوج کے ساتھ ایک ایسے عمل میں شامل ہوں گے جو لبنان کی فوج کے ساتھ مل کر جنگ بندی کی ممکنہ خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کام کرے گا۔ اہلکار نے کہا کہ امریکی جنگی افواج کو تعینات نہیں کیا جائے گا۔بائیڈن انتظامیہ میں قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے سی این این کو بتایا کہ واشنگٹن معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی پر نظر رکھے گا۔انہوں نے کہا، "اس معاہدے پر عمل درآمد کلیدی ہو گا اور ہم اس عمل میں رکاوٹ بننے کی کسی بھی کوشش سے بہت محتاط رہیں گے جس کا فریقین نے آج اس عمل کے ایک حصے کے طور پر عہد کیا ہے۔"جنوری میں اپنا عہدہ چھوڑنے والے بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر زور دیتی رہے گی۔جنگ بندی کے قریبی وقت میں ہی اسرائیل نے بیروت اور لبنان کے دیگر حصوں میں اپنے فضائی حملے تیز کر دیئے جس سے دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی۔ صحت کے حکام نے کم از کم 18 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی۔اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے "حزب اللہ کے مالیاتی انتظام کے اجزاء" کو نشانہ بنایا جس میں منی ایکسچینج آفس بھی شامل ہے۔حزب اللہ نے بھی اسرائیل پر راکٹ حملے جاری رکھے۔فوج نے کہا کہ اسرائیل کی فضائیہ نے لبنانی سرزمین سے تین حملے روکے۔جنوبی گاؤں میں جڑواں بچیوں کی ماں عالیہ ابراہیم تقریباً تین ماہ قبل بیروت فرار ہو گئی تھیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ جنگ بندی کے بارے میں متضاد خیالات کا اظہار کرنے والے اسرائیلی حکام اس معاہدے کی پاسداری کریں گے۔انہوں نے کہا، "انہوں نے ہمارے گاؤں کا نصف حصہ تباہ کر دیا۔ جنگ بندی کا اعلان کرنے سے پہلے ان چند سیکنڈوں میں انہوں نے ہمارا نصف گاؤں تباہ کر دیا۔ انشاء اللہ ہم اپنے گھروں اور اپنی سرزمین پر واپس جا سکتے ہیں۔"اسرائیل کے چینل 12 کے ایک جائزے میں بتایا گیا کہ 37 فیصد اسرائیلی جنگ بندی کے حق میں جبکہ 32 فیصد اس کے خلاف تھے۔اسرائیل میں اس معاہدے کے مخالفین میں حزبِ اختلاف کے رہنما اور لبنان کے ساتھ اسرائیل کی سرحد کے قریب واقع قصبات کے سربراہان شامل ہیں جو لبنان کی سرحد کے اطراف میں غیر آباد بفر زون چاہتے ہیں۔لبنانی حکومت اور حزب اللہ دونوں نے اصرار کیا ہے کہ بے گھر ہونے والے شہریوں کی جنوبی لبنان واپسی جنگ بندی کا ایک اہم اصول ہے۔نیتن یاہو کی حکومت کے دائیں بازو کے رکن اور اسرائیلی سکیورٹی وزیر اتمار بین گویر نے ایکس پر کہا، یہ معاہدہ ملک کے شمال میں اسرائیلیوں کی ان کے گھروں کو واپسی یقینی نہیں بناتا اور لبنانی فوج حزب اللہ پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔بین گویر نے کہا، "لبنان چھوڑنے کے لیے ہمارے پاس اپنی حفاظتی پٹی ہونی چاہیے۔"
ایران کی طرف سے لبنان میں اسرائیل-حزب اللہ جنگ بندی کا خیر مقدم
Nov 27, 2024 | 13:37