آج گھر سے آفس آتے ہوئے اتنی رکاوٹوں کو ذلت آمیز طریقے سے عبور کرنا پڑا کہ یوں محسوس ہونے لگا جیسے ’’ہم ہی مجرم، ہمی قاتل، ہمی کافر ٹھہرے‘‘ یہ کیا غضب ہے کہ دہشت گردوں، خود کش حملہ آوروں، چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں کے نشانے پر بھی ہم عوام اور ان دہشت گردوں، خود کش حملہ آوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں سے تحفظ کے نام پر پولیس گردی کی زد میں آنے والے بھی ہم عوام۔اس وطنِ عزیز کا کیا نقشہ بن گیا ہے کہ ’’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں‘‘ دہشت گردی اور خود کش حملے کی کسی واردات سے خوف و ہراس کی جو فضا پیدا ہوتی ہے اس کی المناکی تو اپنی جگہ مگر ایسی کسی واردات کے بعد ہفتوں، مہینوں تک متعلقہ علاقے اور اس کے گردو نواح میں عملاً کرفیو کی کیفیت پیدا کر کے خوف وہراس کی فضا کو اذیت ناک بھی بنا دیا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے سے لاہور کے مختلف علاقوں میں بے ہودگی کا انداز رکھنے والا سرچ آپریشن جاری ہے جس میں شرفِ انسانیت کے تقاضوں کی مکمل ’’پاسداری‘‘ کی جا رہی ہے۔ کوئی شریف شہری خواتین اور بچوں سمیت اس پولیس گردی سے محفوظ نہیں۔ کوئی سڑک ایسی نہیں جہاں بیرئر والے پولیس ناکے لگا کر شہریوں کی بے عزتی کا اہتمام نہ کیا گیا ہو۔ کرخت لہجے اور خونی آنکھوں کے ساتھ بندوق بردار شیر جوان بالخصوص موٹر سائیکل سوار شہریوں پر یوں جھپٹتے ہیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی کا خون کر کے آئے ہوں حالانکہ اس پولیس گردی میں ان کا اپنا دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح گاڑیاں روک کر اور ان میں موجود افراد کو نیچے اتار کر جس بے ہودگی کے ساتھ ان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے اور پھر ان کی گاڑی کی اکھاڑ پچھاڑ کی جاتی ہے، اس کا مقصد انہیں گھٹیا ترین شہری کا احساس دلانے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایک پولیس ناکے پر کم و بیش ہر شہری کے لئے یہ اذیت ناک مرحلہ کم از کم دس منٹ کے ضیاع کا باعث بنتا ہے، اگر کسی شہری کو اپنے گھر سے آفس آتے ہوئے ایسے پانچ پولیس ناکوں کا بھی سامنا کرنا پڑے تو اس کے پچاس منٹ تو اسی عمل میں ضائع ہو جاتے ہیں جبکہ اس عمل سے پہنچنے والی اذیت اسے دن بھر ویسے ہی بے چین رکھتی ہے کہ وہ اپنی اس بے بسی، کسمپرسی، کم مائیگی اور بے چارگی کی ذمہ داری آخر کس پر ڈالے۔ کیا ایسی بے ہودگی کا ردعمل بھی کئی نوجوانوںکو بے راہروی کی جانب نہیں دھکیلے گا؟۔ اس وطنِ عزیز کا یہ نقشہ بنانے کے ذمہ دار آخر کون ہیں۔ شتر بے مہاروں کی پوچھ گچھ آخر کس نے کرنی ہے۔ون فائیو کے دفتر میں گذشتہ مئی کے خود کش حملوں کے بعد محض سی سی پی او آفس کی حفاظت کی خاطر کم و بیش ڈیڑھ ماہ تک چوک لارنس روڈ سے چیئرنگ کراس تک شاہراہ فاطمہ جناح کو مکمل بند کر کے لوگوں کا کاروبار، روزگار تباہ کیا گیا اور اب لاہور کے ایف آئی اے بلڈنگ، مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر اور بیدیاں ایلیٹ فورس ٹریننگ سکول کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پھر سے محض سی سی پی او کی حفاظت کی خاطر اس سڑک کے مخصوص علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیا ساری شرف انسانیت، سارے انسانی حقوق، سارے تحفظات، تمام سہولتیں اور تمام اختیارات صرف سی سی پی او اور اس قبیل کے دیگر پولیس افسران ہی کو حاصل ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری تو شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کی ہوتی ہے مگر وہ اپنی ہر اتھارٹی کو صرف اپنے تحفظ کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں اور اپنے تحفظ کی خاطر وہ جگہ جگہ پولیس ناکوں کے ذریعے شہریوں کی ذلت و رسوائی کا اہتمام بھی کرا رہے ہیں۔ جتنا خوف و ہراس پولیس گردی سے پیدا ہوتا ہے اس سے قانون و امن نافذ کرنے والے یہ ادارے خود ہی دہشت گردوں کے مقاصد پورے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ خوف و ہراس کی اس فضا میں پورے ملک پر عملاً سکوتِ مرگ طاری ہے۔ کاروباری اداروں اور مارکیٹوں میں ویرانی اور سناٹا طاری ہے، سستے بازار بند ہو چکے ہیں، لوگوں کا اپنے رشتہ داروں، عزیزو اقارب کے ہاں آنا جانا کم ہو گیا ہے۔ غیر یقینی کی فضا نے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی دفاتر کی کارکردگی کو بھی جکڑ رکھا ہے جبکہ تعلیمی ادارے بند کر کے خوف وہراس میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا۔ پھر اندازہ لگائیے اس سہمی، دبکی، خوفزدہ لرزتی قوم کی گردن ناپنے کے لئے دشمن کو کسی کاری ضرب کی ضرورت پڑے گی؟۔ ہم تو خود ہی دشمن کے آگے ڈھیر ہوئے جا رہے ہیں اور اپنے اوپر قبرستان کی فضا طاری کر رہے ہیں۔ اگر اقتدار کی بلند فصیلوں میں دبکے حکمران اشرافیہ طبقہ کو اپنے اعمال کی بنیاد پر کوئی انہونا خوف لاحق ہے تو اپنے تحفظ کی خاطر وہ پورے ملک میں خوفزدگی کی فضا طاری کرکے عوام کے حوصلے تو پست نہ کریں، قومی معیشت کا بیڑہ تو غرق نہ کریں، اس وطن عزیز کو خود ہی تباہی کی جانب تو نہ دھکیلیں کہ یہ صورتحال بھی ہمیں دہشت گردی کی زد میں لانے والے دشمن کے عزائم کو کامیاب بنانے کے مترادف ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے لئے اس ملک کو تباہ کرنے سے متعلق دشمن اور اپنے ’’دوست‘‘ حکمرانوں کے عزائم میں امتیاز کرنا مشکل ہو جائے۔