جپھی ملک اور قوم کی خاطر

پہلے ایک ہندو جھلکی اور پھر زرداری کی’’ مفاہمت‘‘ یہ ہندو جھلکی مجھے چند روز پہلے اس شخصیت نے بتائی تھی جسے تخت رام نے خود اپنے گھرپر بلا کر سنائی تھی تخت را م ہندو بھارت کے کسٹمز کے شعبہ کا سربراہ ہوتا تھا ایک جہاز کا سامان چیک کیا گیا تو اس میں کچھ ایسی چیزیں تھیں جن کی بھارت میں درآمد پر پابندی تھی متعلقہ حکام نے ان اشیاء کی فہرست بنائی اور تخت رام کو آگاہ کردیا تخت رام نے کیس کا جائزہ لیا اور قانونی کارروائی شروع کردی۔ اس کے محکمہ میں تو جیسے طوفان آگیا ہو۔ محکمہ کا سیکرٹری وزیر سب پریشان ہوگئے اندرا گاندھی بھارت کی وزیراعظم تھی اور وہ ممنوعہ سامان اس کے پیارے بیٹے سنجے گاندھی نے منگوایا تھا اور تخت رام نے سامان لانے والی جہاز ران کمپنی کے خلاف بھی کارروائی شروع کردی تھی اور ان ایجنٹوں کے خلاف بھی جن کے نام پر سامان منگوایا گیا تھا۔ حکومت ہند میں سنجے کے ڈاکٹر بابر اعوان نے تخت رام کو سمجھایا بھی اور ڈرایا بھی کہ تم جانتے ہو سنجے گاندھی اندرا گاندھی کا لاڈلا ہے۔ سرگودھا سے گیا ہوا ہندو تخت رام پھر بھی نہ ڈرا معاملہ بڑھتا گیا اور ایک روز وزیراعظم ہند اندرا گاندھی نے تخت رام کو بلالیا۔تخت رام نے اسے بتایا تھا یعنی ہمیں جھلکی سنانے والی سرگودھا کی شخصیت کو کہ میں گیا تو وزیراعظم کوئی فائل دیکھ رہی تھیں انہوں نے سر اٹھایا نہ میری طرف دیکھا فائل پڑھتی رہیں ایک کے بعد دوسری فائل اٹھائی ’’ تو آپ ہیں مسٹر تخت رام ؟‘‘ ’’جی میں حاضر ہوں‘‘’’ یہ تم نے کیا مسئلہ پیدا کردیا ہے‘‘۔’’جی میں نے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا یہ آپ کا بنایا قانون ہے اور قانون پرعمل کرنا کرانا میری ذمہ داری ہے میں نے تو اپنا فرض پور اکیا ہے۔ وزیراعظم ہند نے تخت رام سے کافی کچھ پوچھا اور ’’جائو‘‘ کا حکم جاری کردیا ۔ محکمہ کا سیکرٹری منتظر تھا واپس آکر تخت رام نے اسے وزیراعظم سے اپنی ملاقات کا حال سنایا تو سیکرٹری نے کہا ’’ تو پھر تمہاری چھٹی‘‘ تخت رام نے اپنے دفتر سے اپناذاتی سامان اٹھایا اور اپنے کو فارغ البال سمجھ کر گھر چلا گیا۔ اگلے روز دیر تک سویا دیر سے جاگا اور دیر سے دفتر گیا۔ تیسرے روز ابھی اسی دیر کے مراحل میں تھا کہ محکمہ کے سیکرٹری کا ٹیلیفون آگیا’’ جلدی آئو‘‘ وہ جلدی جلدی سیکرٹری کے دفتر پہنچا اس کی میز پر وزیراعظم اندرا گاندھی کے بھیجے دو خط تھے ایک خط میں وزیراعظم ہند اندرا گاندھی نے تمام ضوابط سے استثنیٰ دیتے ہوئے تخت رام کو ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال ملازمت میں توسیع کا حکمنامہ بھیجا تھا تخت رام چند ماہ بعد ریٹائر ہونے جارہا تھا اور دوسرے خط میں وزیراعظم کی طرف سے تخت رام کو بھارت کا ایک بڑا سول ایوارڈ دینے کی اطلا ع تھی۔ یہ ساری تفصیل سرگودھا کی ایک شخصیت نے ہمیں بتائی تھی جسے ایک گھر دعوت پر بلا کر تخت رام نے خود سنائی تھی۔ اور اب کچھ مسلم یا مسلم لیگی ہونے کے دعویدار گجراتیا چودھریوں کی جھلکیاں، ماضی کی نہیں، ماضی کی جھلکیوں کی تفصیل بڑی طویل ہے۔ شملہ معاہدہ کی خوشی میں کئے گئے لاہور کے ٹائون ہال میں جلسہ سے چودھری ظہور الٰہی کے آنجہانی ہوجانے کے حادثہ تک اتنی تفصیل ہے کہ مرحوم کے احترام میں اس کا فی الحال نہ بتانا ہی بہتر ہے ہاں9اپریل 1977ء کے اس جلوس کی جھلکی جس میں اسمبلی ہال کے سامنے خواتین کے جلوس پر پولیس کے حملہ میں چودھری صاحب کی صاحبزادی کا سسر پھٹ گیا تھا وہ چودھری پرویز الٰہی کو معلوم نہیں ہوگی اس وقت وہ ابھی انتخابی سیاست میں مونس الٰہی ہی تھے مگر وہ جھلکی جب وہ میاں محمد نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب پر دست وبازو ہوتے تھے اور پھر انہوں نے وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کو میاں محمد نواز شریف کے بارے میں تحریری شکایات بھیج کر پنجاب اسمبلی کی سپیکر شپ سے استعفیٰ دیدیا تھا اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف کو نت ہائوس دعوت پر بلا کر دونوں چودھریوں نے ملک اور قوم کی خاطر ان کی گاڑی اپنے لیگی کندھوں پر اٹھائی تھی وہ جھلکی تو آپ میں سے بہت سوں کو یاد ہوگی۔ روز رفتہ این آر او شاہ جی کی حکمرانی کے امراض و اغراض مخصوص کے ڈاکٹر بابر اعوان کی چودھری پرویز الٰہی سے مفاہمتی جپھی کی جھلکی دیکھ کر معلوم نہیں آپ کو ان چودھریوں کی ملک و قوم کی خدمات عالیہ کی کوئی جھلکیاں نظر آئی تھیں یا نہیں۔ وہ جھلکی بھی نہیں جو نو سال ملک اور قوم کی خاطر باوردی پرویز مشرف کی خدمات کی جھلکی ہے؟ اس کی وردی سے عشق چودھریانہ کی جھلکی۔ اس سے پہلے کی بات رہنے دیں۔ بڑی لمبی کہانی ہے۔ کبھی وقت فرصت۔ تو بات اتنی ہے کہ انہوں نے یعنی چودھری برادران نے ملک اور قوم کی خدمت کے علاوہ تو کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔ کیا ہے؟ پوچھ لیں میاں اظہر سے اور میر ظفر اللہ خان جمالی سے اور اس کسی طارق عزیز سے جس سے ان کی کافی عزیز داری بھی تھی چودھری اعوان جپھی کے حوالے سے ٹیلیویژن والوں نے چودھری پرویز الٰہی کو ان کے ماضی کی چند روشن جھلکیاں دکھا کر پوچھا تھا کہ وہی پارٹی جس نے بقول آپ کے پاکستان توڑا تھا اس کے امراض مخصوصہ کے ڈاکٹر سے جھپی؟ تو جواب وہی تھا کہ ملک اور قوم کی خدمت کیلئے اور بابر اعوان کی اپنے آقا کی بی بی جی کے قتل کے حوالے سے اپنے آقا ہی کو اس لیگ کو ’’ قاتل لیگ‘‘ قرار دینے کے باوجوددر چودھریاں پر حاضری؟ ظاہر ہے ملک اور قوم کی خدمت ہی کیلئے پنجاب بنک اور کرپشن کمیشن اور سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کے عدالت عالیہ کے حکم پر عملدرآمد کا اس جپھی سے ہرگز ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا کرسکتے ہیں چودھری ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف کوئی ایسی سازش؟ اور زرداری میں۔ آپس کا ایک رشتہ باہمی بھی تو ہوتا ہے۔ ویسے اس جپھی میں میاں برادران کا کوئی بھی حصہ نہیں؟ ان کی چودھری لیگ کو آصف علی زرداری کی پناہ کی طرف دھکیلتے رہے ہیں ملک اور قوم کی خاطر۔ توکیا نہیں کیا ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ملک اور قوم کی خاطر۔

ای پیپر دی نیشن