آج عیدالاضحی ہے‘ آج بکرا عید ہے اور مزید یہ کہ آج بقرہ عید یعنی گائے کی قربانی کی عید بھی ہے‘ لگ بھگ پانچ برس کی قربانیوں کے بعد بھی قوم عیدالاضحی منا رہی ہے‘ ان کو ہزاروں سلام ڈھیروں مبارکباد۔
گر قبول افتد زہے عزو شرف
(یہ سلام و مبارکباد اور قربانی قبول ہو جائے تو کیا ہی اعزاز و اکرام کی بات ہو گی)۔ہمیں یاد ہے کہ ایک عید پر ایسا بکرا خریدا کہ جس کے سینگ کوئی میوزیکل انسٹرومنٹ لگتے تھے‘ اسکے سر پر اتنے خوبصورت بال آگے کو بڑھے ہوئے تھے کہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بکرا نہایت سریلے انداز میں بولتا‘ جیسے کہہ رہا ہو....
لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم
میں نہ لگاﺅں ”گا“ ہاتھ رے
اور اس بکرے کی ایک نہایت انوکھی ادا یہ تھی کہ رات کو بہت شور مچاتا تھا‘ ہم نے رات کو اسے ٹی وی کے سامنے لا کر بی بی سی چینل لگا دیا‘ تو وہ فوراً خاموش ہو گیا اور بی بی سی دیکھنے لگا۔ ہمیں لگا کہ یہ کوئی صحافی بکرا ہے کہ اتنے غور و خوض سے خبریں سن رہا ہے اور انگریزی بھی خوب جانتا ہے۔ ہم نے اگرچہ اس کا گوشت بھی کھایا‘ غریبوں میں بھی بانٹا لیکن آج تک اس کا روئے زیبا بھولا نہیں اور اس سے بڑھ کر یہ ادا کہ وہ رات گئے تک ہمارے ساتھ بی بی سی دیکھتا اور خاموش رہتا‘ ہمارے پوچھنے پر آواز نکالتا: "No comments"
٭....٭....٭....٭
چکوال میں ملنگ 30 منٹ میں 50 مرچیں کھا گیا‘ دھمال بھی ڈالی۔
50 مرچ کھانے کے بعد ملنگ دھمال نہیں ڈالے گا تو خود کو مار ڈالے گا‘ ایک مرچ کا ٹکڑا بھی انسان کھالے تو اس کا سر دائیں بائیں ہلنے لگتا ہے اور 50 مرچوں سے تو مرغ بسمل کی طرح رقص کرےگا۔ ملنگ کا جوڑ تو بھنگ ہے‘ یہ مرچ ملنگ‘ ملنگوں کی صف میں نیا اضافہ ہے۔ ملنگ اور عذرلنگ دونوں ہم مسلک ہیں اس لئے ملنگ کا ترجمہ عضو معطل بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ملنگوں کی بڑی قدر ہے کیونکہ انکے گیٹ اپ سے لگتا ہے کہ یہ اس سیارے کی مخلوق ہی نہیں۔ ضعیف الاعتقاد خواتین و حضرات انکی باتوں میں آجاتے ہیں اور دھوکے کی معراج پر پہنچ جاتے ہیں اس لئے ہم اپنی قوم سے التماس کرتے ہیں کہ اس مخلوق کی قربت سے بچیں‘ اس میں عافیت ہے۔ اپنے عظیم قوت والے رب سے گریہ و زاری کریں‘ وہ گوش برآواز رہتا ہے اور اسکی رحمت کا دریا موج میں‘ جس کا مالک اتنا عظیم اور صاحب کن فیکون ہو‘ اسے سہارے ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان ملنگوں‘ ڈبہ پیروں کے کیسے کیسے کرتوت سامنے آتے ہیں لیکن پھر بھی کسی کو عبرت نہیں ہوتی۔ اقبال نے کیا خوب فرمایا....
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
ایک بے کار شخص ملنگ بن کر بھنگ چرس پینے کے ساتھ لوگوں کو بھی لوٹے‘ کیا یہ قومی خزانے کو نقصان نہیں۔ ملنگ کلچر کیخلاف بھی قانون سازی ہونی چاہیے‘ اسلام میں ملنگ بننے کی گنجائش نہیں‘ ان کو معاشرے کا فعال فرد بنایا جائے‘ مگر ہماری این جی اوز تو صرف ملا ملائیں پالتی اور ڈالروں کے انبار لوٹتی ہیں۔
٭....٭....٭....٭
تنویر کائرہ کہتے ہیں: 90 کا الیکشن چرانے کا بدلہ پنجاب چھین کر لیں گے۔
یہ تو یوں لگتا ہے کہ جیسے رنجیت سنگھ زندہ ہو کر کہہ رہا ہو کہ شہباز شریف صاحب! میرے پنجاب پر قبضہ کیا ہے‘ چھین کر رہوں گا۔ ایک کائرہ کافی نہ تھا کہ اب ایک اور کائرہ بھی شکم پی پی سے نکل آیا۔ کیا پنجاب کے عوام کی یہ توہین نہیں کہ انکے ملکیتی صوبے کو چھیننے کی دھمکیاں دی جائیں۔ یہ پنجاب‘ پنجابیوں کا ہے اور پیپلز پارٹی اپنی دوسری سیاسی غلطیوں کے ساتھ اب یہ غلطی بھی کر رہی ہے کہ اس نے پنجاب فتح کرنے کی اٹوٹ رٹ لگا دی ہے۔ کیا اس ملک میں اور کوئی صوبہ نہیں‘ کیا پی پی کسی دوسرے صوبے میں انتخابات نہیں لڑے گی؟ اور یہ انتخابات لڑنے کی تیاری ہو رہی ہے یا پنجاب چھیننے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ کیا اہل پنجاب کے صوبے سے متعلق جنگجویانہ باتیں کرکے پنجابیوں کے ووٹ حاصل کئے جا سکیں گے؟
لگتا ہے صوبہ چھین کائرہ پر واضح ہو چکا ہے کہ اب کے پی پی نے جتنی پی لی سو پی لی‘ اب بس مینا خالی کرنے کا زمانہ ہے۔ پھر ایسے میں یہ تنویر کائرہ نے کیا زیادہ مقدار میں گندم کھالی ہے....
کچھ مزا گیہوں کا کچھ حوا کے کہنے کا خیال
آپ ہی کہیئے کہ آدم اس موقع پر کیا کریں
پنجاب کے ایک کروڑ سے زائد عوام سے پنجاب چھیننا آسان نہیں‘ حیرت ہے کہ یہ کائرہ وائرہ بھی پنجابی ہیں اور جو پتھر پھینکتے ہیں‘ وہ سندھی ٹوپی والے کو نہیں کو پڑیں گے۔ کیا پنجابی میر صادق اور میرجعفر بھی ہوا کرتے ہیں؟
٭....٭....٭....٭
نیپال کی اداکارہ پوجا جی نے اسلام قبول کرلیا۔
کوئی کچھ بھی کرے‘ شر کی دھاندلیوں کے ساتھ اسلام پر حملوں کے ہمراہ‘ اسلام کے ساتھ ایجاب و قبول کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نیپال کی اداکارہ نے اسلام قبول کرلیا اور ہماری اداکارہ نرگس نے اسلام قبول کرنے کے بعد پھر سے اسلام قبول کرلیا۔ گویا اسلام تہہ در تہہ پھیل رہا ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ نیپالی اداکارہ نے کہا ہے کہ اسلام کیخلاف پروپیگنڈے نے مجھے اسلام سے قریب کردیا۔ اسلام ایسا نور ہے کہ اسے اندھیرا کہنے والے جھوٹے پڑ جاتے ہیں اور اندھیروں میں ڈوبے لوگ نورِ ہدایت کیطرف نکل آتے ہیں۔ گویا باطل کی جارحیت اور اسلام کیخلاف پروپیگنڈا بھی اسلام کی طرف ہی لے جا رہا ہے۔ باطل اپنی تدبیریں کررہا ہے اور اللہ اپنی‘ اب اسکے سامنے انسانی تدبیر کیا حیثیت رکھتی ہے۔ ناصر کاظمی کی روح سے معذرت کے ساتھ....
یہ جو مخالف ہوا چلی ہے ابھی
شاید کسی نے کلمہ پڑھ لیا ہے ابھی
نیپال کی سرحد بھی بھارت سے ملتی ہے‘ لگتا ہے اسلام اس جانب سے بھی بتکدہ¿ ہند میں داخل ہو سکتا ہے۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا