تحریک آزادی¿ کشمیر کا بیس کیمپ، ہمارے حکمران اور مسلم لیگ

Oct 27, 2012

سید نصیب اللہ گردیزی

اسلامیانِ کشمیر نے 19جولائی1947ءکو جو الحاقِ پاکستان کی قرارداد منظورکی تھی اس میں واضح طورپر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیر کے 88فیصد مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق کرناچاہتے ہیں لیکن مہاراجہ ہری سنگھ کسی فیصلے پر نہ پہنچ پایا۔14اگست1947ءکو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اُس دن جہاں ریاست کے عوام نے شکرانے کے نوافل پڑھے وہاں زبردست جشن بھی منایا پاکستان کا پرچم سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر لہرایا گیااور ریاست کے کونے کونے میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنے لگے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے حکومت پاکستان کے ساتھStand Still Agreement کرلیا اور ریاست کے تمام ڈاکخانوں پر اور سرکاری عمارتوں پر پاکستانی پرچم لہرا کر انہیں سلامی دی گئی لیکن یہ صرف وقت کو ٹالنے کا بہانہ تھا مسلمانوںسے ہتھیار چھین کر تھانوں میں جمع کردئیے جانے لگے اور فوج اور پولیس میں موجودہ مسلمان افسروں اور جوانوں کو بھی غیر مسلح کردیا گیا۔راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی متعصب ہندو تنظیموںکے کارکنوں پر مشتمل مسلح جتھے جوق در جوق ریاست میں پہنچنے لگے۔ جنہوں نے ڈوگرہ فوج کیساتھ مل کر ہندو اکثریت والے قصبوں اور دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ ریاست کے صوبہ جموں سے ملحقہ پونچھ ضلع کے غیور مسلمانوں نے اس صورت حال سے الحاق کا مطالبہ دہرانے کے علاوہ بطور احتجاج،محصولات کی ادائیگی بند کردی۔پونچھ کے مسلمانوں کی اکثریت جنگجو تھی اور بیشتر لوگ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج میں شامل رہے تھے۔ان کی بڑی تعداد اپنے گھروں کو واپس آچکی تھی۔
آزادی کے متوالوں نے وطن عزیز کی آزادی کی خاطر اپنے گرم لہو سے داستان حریت رقم کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا اور وہ یہ عزم لیکر اٹھے کہ جب تک اپنے وطن کو ڈوگرہ استبداد سے نجات نہیںدلائیں گے ہرگز چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔جلد ہی یہ تحریک پوری ریاست میں پھیل گئی۔جموں، پونچھ، باغ، راولا کوٹ،مظفر آباد،میرپور، کوٹلی،گلگت،بلتستان میں مجاہدین نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور تقریباً32 ہزار مربع میل علاقہ آزاد کرالیا۔24اکتوبر1947ءکو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا اعلان کردیا گیا اور اس کے پہلے صدر سردار محمد ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس نگرانِ اعلیٰ مقرر ہوئے اور آزا د کشمیر کو تحریک آزادی¿ کا بیس کیمپ قرار دیا گیا۔قراردادِمقاصد کے تحت اپنی جدوجہد تحریک آزادی کشمیر او ر اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق تک جاری رکھنے کا عہد کیا گیا۔جنرل پرویز مشرف کے 9سالہ دورِ حکومت میں مسئلہ کشمیرکے حوالے سے بیشمار آپشنز بھارت کو دئیے گئے جو کشمیریوں اور پاکستانیوں کے علم میں نہ لائے گئے لیکن بھارت کی طرف سے کوئی ایک آپشن بھی نہ آیا۔جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اقتدار کی خاطر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو بے شمار مراعات دیں اور ان کی بیشمار آپشنز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو دباﺅ پر لگاتے ہوئے 18کروڑ عوام کو رسوائی اور پستی کی طرف دھکیل دیا اور کشمیر میں سیز فائر لائن پر بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر عملاً سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن بنادیا۔کشمیریوں کے حق میں چین،اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی بھرپور حمایت، یورپی یونین، برطانوی پارلیمنٹ کی کشمیریوں کے حق میں منظور کی جانے والی قراردادوں کے باوجود کوئی مثبت کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔دوسری طرف آزادی¿ کشمیر کے بیس کیمپ میں قائم ہونے والی مسلم کانفرنس کی دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں چار وزراءاعظم تبدیل کرڈالے اس طرح بیس کیمپ تحریک آزادی¿ کشمیر کے مشن کو جاری رکھنے کی بجائے وزارتوں کی خرید و فروخت میں پڑ گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حکمران ٹولے کی غلط حکمت عملی اور پالیسیوں کی وجہ سے اس کے ساتھیوں نے پاکستان کی خالق جماعت پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ چونکہ مسلم کانفرنس کی قیادت نے اُس کے نظریے سے انحراف کردیا ہے اور اس طرح عملی طورپر کشمیر میں مسلم کانفرنس کا وجود ختم ہوگیا ہے۔لہٰذا مسلم لیگ کو آزاد کشمیرتک وسعت دی جائے۔اس کے باوجود میاں محمد نواز شریف صاحب بہت عرصہ تک خود بھی اور اپنے ساتھیوں کے ذریعے بھی اصلاحِ احوال کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن حالات کی اصلاح نہ ہوسکی۔ با امر مجبوری قائد پاکستان مسلم لیگ نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ بنانے کا اعلان کردیا اور مسلم کانفرنس کی اکثریت مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئی۔آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات نگران وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کی موجودگی میں کرائے گئے۔ ان کے اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا جس کے تحت سردار عتیق احمد خان کو آئندہ آزاد کشمیر کا صدر بنایا جانا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سونپا جانا طے ہوا۔ بعد میں حسب عادت پیپلز پارٹی نے سردار عتیق کے ساتھ بھی ہاتھ کردیا اور اُس کے ممبران اسمبلی نے ان کو صدر بنانے کی مخالفت کردی ویسے بھی وہ الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے تھے اور وفاقی وزیر امور کشمیر منظور وٹو کے پلان کے تحت الیکشن کمشن،نگران حکومت اور وفاقی حکومت نے ملکر آزاد کشمیر میں دھاندلی کی اور جھرلو اور ٹھپے کے ذریعے آزاد کشمیر اور مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے ووٹوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اپنی اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود جبکہ مسلم لیگ(ن) کو آزاد کشمیر میں قائم ہوئے صرف پانچ ماہ کاعرصہ ہوا تھا آزاد کشمیر کی عوام نے اور مہاجرین جموں و کشمیر نے میاں محمد نواز شریف کی قیادت پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے ان کے نامزد کردہ13 ممبران اسمبلی کو منتخب کرکے جمہوریت میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا صاف اور شفاف انتخابات ہوتے تو آج آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم ہوتی۔وفاقی حکومت آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت سے امریکی دباﺅ اور بھارتی خواہش پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے اور آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کیلئے انگوٹھا لگانے کی سازش پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن محب وطن قیادت اور عوام لاکھوں کشمیریوں کی قیمتی جانوں کی قربانیوں کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دیںگے۔

مزیدخبریں