” گردش دوراں“ سیدہ حنا بابر علی کی نئی کاوش ہے،اسے پڑھ کر یوں لگا کہ جیسے گردش دوراں کچھ رک سی گئی ہے،اس مجموعہ شعر میں حمد،نعت منقبت آزاد نظمیں اور تغزل کا موسم بھی موجود ہے،اسے دبستان تو نہیں تاہم چمنستانِ حب و ہنر کہاجاسکتا ہے،جذبوںکی صداقت میں اس درجہ وفور ہے کہ جیسے مئے گلفام لب جام سے باہر نکل آئی۔ ایک ناپختگی سی ہے جو پختگی کی غماز ہے،اگر شاعرہ تھوڑا سا خیال عروض وبحور کا بھی رکھ لیتیں تو جھومنے میں وقفہ نہ پڑتا،اللہ کی حمد پڑھ کر لگتا ہے، اللہ سے رنگ تغزل میں رازونیاز کی باتیں کی گئی ہیں اور اسم ذات کا تکرار اسقدر ہے کہ بقول حافظ....
ماہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الاحدیثِ یار کہ تکرار می کنم
(میں نے جو پڑھا لکھا سب بھلا دیا،ماسوا یار کی باتوں کے کہ ہر وقت اُنہی کا تکرار کرتا ہوں)
اگر سیدہ صاحبہ پابند غزل کی راہ اختیار کریں تو ان کی طبیعت کی موزونیت میں وزن پیدا ہوجائے اور ایک ایسی سبک روی نصیب ہو کہ ہر لفظ سے خوشبو آئے کہ حنا کو ابھی کچھ اور گھسنے کی ضرورت ہے، تاکہ شاعری کا دستِ حنائی اُن کی قبا سے برآمد ہو۔ گردش دوراں میں بہت کچھ ہے ،ایک آنچ کی کسر ہے شعریت کی لے تیز کرنے کی ضرورت۔ گردش دوراں کی مصنفہ سیدہ حنا بابر علی ہیں ۔
285 صفحات پر مشتمل یہ شعری کاوش لائق مطالعہ ہے، جذبے کی پاکیزگی اور خیال کا زور منہ زور ہے۔
تبصرہ نگار:پروفیسر سیداسرار بخاری نوائے وقت لاہور