امریکہ اعلان کے بغیر ڈرون حملے بند کرے گا، سال کے آخر تک کم ہو جائیں گے : سرتاج عزیز !
امریکہ پہلے بھی اعلان کے بغیر ہی سب کچھ کرتا ہے، سال کے آخر تک کم ہوں گے یا ختم؟ جناب اگر کم ہی ہونے ہیں تو پھر میاں صاحب وہاں صرف بھنی بھیڑ کھانے اور فوٹو سیشن کروانے لگے تھے، اب تو امریکہ ویسے بھی کبھی کبھی پُھلجھڑیاں چھوڑتا ہے۔ 2004ءسے اب تک امریکہ 376 حملے کرچکا ہے اب تو آسمان پر اُڑتے پرندوں کو دیکھ کر بھی ڈر لگتا ہے کہیں یہ بھی ڈرون نہ ہوں۔ اسماعیل میرٹھی نے کہا تھا ....
پانی میں ہے آگ لگانا دشوار
بہتے ہوئے دریا کو پھیر لانا دشوار
دشوار سہی مگر نہ اتنا دشوار
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار
میاں صاحب نے نہ جانے وہاں بات بھی کی ہے یا نہیں لیکن اوول آفس سے باہر نکل کر وہ کہتے ہیں کہ ڈرون پر بات ہوئی ہے۔ بگڑے ہوﺅں کو سنوارنا اتنا آسان کام نہیں ہے، بقول سرتاج عزیز کشمیر جیسے بنیادی مسائل حل نہ ہونے تک بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ تو جناب والا یہ بات ذرا باراک اوباما کے سامنے بھی کہنی تھی وہاں تو مارے ”جرا¿ت“ کے وزیراعظم کے منہ سے باراک اوباما کی طرح صدر کلنٹن نکلتا رہا ہے، جب اتنا خوف ہو تو پھر اصل باتیں تو بھول جاتی ہیں۔ کاش نواز شریف وہاں آپ کو وزیر خارجہ کہہ کر پکارنا شروع ہو جاتے تو پھر ازراہِ تفنن آپ انہیں کہہ سکتے تھے کہ اب مجھے آپ وزیر خارجہ بنا دیں لیکن ایسی گھاٹے والی بات تو میاں صاحب کے منہ سے بھی نہیں نکلتی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
دبئی ٹیسٹ جنوبی افریقہ کے 2 کھلاڑی بال ٹمپرنگ کرتے پکڑے گئے !
بال ٹمپرنگ ہوئی لیکن عالمی میڈیا نے کوئی شام غریباں کی مجلس کا اہتمام نہیں کیا بلکہ ”مٹی پا¶“ سے کام لیکر خاموش ہو گئے۔ اگر ہمارے کھلاڑیوں نے بال ٹمپرنگ کی ہوتی تو میڈیا پر بھی ہمارے خلاف المیہ مجلسیں سجنی تھیں، اب چونکہ گورے کھلاڑی تھے اسی لئے انہوں نے جرمانے اور پنلٹی کے 5 سکور سے کام لیکر سب کچھ چلتا کیا۔ ایسا کام ہم کریں تو ہم چور، مخالف کریں تو وہ ہیرو۔ یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ بال ٹمپرنگ کرنے والے کھلاڑیوں پر ضابطے کے مطابق کچھ میچز کی پابندی تو لگانی چاہئے تھی تاکہ ہمارے کھلاڑیوں کو یہ احساس نہ ہو تاکہ ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا نہ ہی کوئی انٹی کرپشن سیل متحرک ہوا، بس منٹوں سکینڈوں میں معاملے کو رفع دفع کر کے کھلاڑیوں کو کلین چٹ دے دی گئی۔ آئی سی سی اس دہرے معیار پر غور کرے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پاکستان میں مقیم جاپانی سفیر کی جانب سے تنازعہ کشمیر کے حل پر زور دینے سے ثابت ہو گیا ہے کہ عالمی برادری اب اس تنازعہ سے تنگ آ چکی ہے اور اس کا پُرامن حل چاہتی ہے کیونکہ یہ سلسلہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان خطرناک حد تک تعلقات کے بگاڑ کا باعث بنا ہُوا ہے اور بھارت کی ہٹ دھرمی اس تنازعہ کے حل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
جاپان خود بھی ایٹمی جارحیت کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی بھاری قیمت چکانے کے بعد آج تک دنیا بھر کو اس وحشت و بربریت کے کھیل سے دور رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا آیا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ایٹمی دھماکوں کا ایندھن بنے تھے۔ ہم خود بھی مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل چاہتے ہیں اس لئے ہماری تو جاپان سے درخواست ہے کہ وہ ایک جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ترقی یافتہ ملک ہے اس کے ہاں طرح طرح کی ایجادات ہر روز نت نئے انداز سے سامنے آتی ہیں، اس کے فنی ماہرین نت نئے تجربات کر کے دنیا بھر کے لوگوں اور مارکیٹوں کو فتح کر رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ایسا تیر بہدف فارمولہ بھی ایجاد کریں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو حل کر دے۔ اگر جاپانی ماہرین کسی ایسے فارمولے کو یا کسی ایسی جدید ایجاد کو لے آئیں جو یہ مسئلہ حل کرے تو اس سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا اور وہ جاپانی ماہرین کو دعائیں گے ورنہ اگر یہ دونوں ایٹمی طاقتیں لڑ پڑیں تو ہمارے قومی شاعر حضرت اقبالؒ نے جو کہا ہے وہ سچ ثابت نہ ہو جائے .... ع
”غسال آئیں گے کابل سے کفن جاپان کا ہو گا“
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بجلی بچت کیلئے نیا منصوبہ آدھی قیمت پر سولر پینل نئی سوسائٹیوں میں لازمی قرار
حکومت آدھی قیمت پر سولر پینل دینے کی بجائے لوڈشیڈنگ کا مستقلاً علاج کیوں نہیں کرتی۔ عارضی علاج تو کبھی مرض کو دوبارہ سے اٹھنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ حکومت نے نئی سوسائٹیوں کیلئے سولر کو لازمی قرار دیا ہے۔ حکومت سرے سے اس مصیبت کو ختم کرکے اسمبلی میں ایسا قانون کیوں نہیں بنواتی کہ ہر گھر بنانے والے کیلئے گھر کی چھت پر سولر نصب کرنا ضروری ہے۔ دیہات میں کیبل ابھی نہیں پہنچی وہاں پہ گھروں کی چھتوں پر وہی پرانے ٹی وی انٹینے لگے نظر آتے ہیں اگر آپ گھر کی چھت پر کھڑے ہوں تو چارسُو آپکو وہی نظر آئیں گے اگر حکومت سولر پینل لازمی قرار دے دیتی ہے تو پھر انٹینوں کی جگہ سولر پینل لے لیں گے اور ہر طرف سولر ہی سولر نظر آئینگے۔ حکومت کا سرکاری دفاتر کی چھتوں پر سولر لگانے کا پروگرام تھا۔ اس کیلئے مشیر توانائی شاہد ریاض گوندل کافی متحرک نظر آتے ہیں۔
دیکھیں وہ پاکستان میں سولر کے ذریعے روشنیاں واپس لانے میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔ ویسے جو آدمی 50لاکھ کا گھر تعمیر کر لیتا ہے وہ ایک لاکھ کا اعلیٰ سولر لگا کر اپنے آنگن میں خوشیوں کے ساتھ روشنی بھی لا سکتا ہے۔ کافی جگہوں پر سولر نصب کئے گئے ہیں اگر گھروں کی چھتوں پر بھی سولر نصب ہونا شروع ہو گئے تو پھر پاکستان سولرستان بن جائے گا۔