غذائی تحفظ اور ملک کی موجودہ صورتحال

Oct 27, 2013

ڈاکٹر بلال اسلم صوفی

دنیا میں غذائی تحفظ کے بارے میں مختلف نکتہ نظر چل رہے ہیں بعض لوگوں کے خیال میں غذا کا کافی مقدار میں ہونا غذائی تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔ ہمارے ہاں جب وفاقی سطح پر وزارت خوراک و زراعت تھی۔ (MINFAL) خوراک کے بارے میں کچھ نہ کچھ سوچ و بچار جاری رہتا تھا مگر اٹھاریں ترمیم کے بعد منسٹری کا خانہ اور پھر ایک کاغذی منسٹری کا وجود بندے پورے کرنے کیلئے رکھنا ہمیں غذا کے بارے میں سوچنے اور لائحہ عمل ترتیب دینے سے بہت دور لے گیا ہے اور جس کا مظاہرہ اسی سال گندم کی حالیہ پوزیشن دیکھ کر ہو رہا ہے۔ جب ملک میں کوئی کہتا ہے کہ گندم کم پیدا ہوئی۔ کوئی کہتا ہے 20 فیصد کمی ہے اور کوئی مجھ جیسا محب وطن کہتا ہے کہ نہیں گندم تو پوری ہے ذخیرہ اندوزوں کی پالیسی چل رہی ہے۔ ذرا سوچئے اگر کوئی ادارہ موجود ہو جو سائنسی بنیادوں پر گندم اور باقی فصلوں کا تجزیہ کر کے انکی صحیح پیداوار کا تعین کرے تو فیصلے کرنے کتنے آسان ہو جائیں مگراس سیزن کے شروع ہی میں یہ شورمچا دیا گیا کہ بھارت سے گندم درآمد کی جائے گویا کہ پاکستان میں گندم کی کمی ہو شاید مگر یہ تاثر دینا باکل غلط تھا اور اسکے پیچھے کمیشن مافیاموجود تھا جنہوں نے فلور ملز ایسوسی ایشن کے ہاتھوں پر کام پورا کروانے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی کیونکہ راقم الحروف نے 13جولائی 2013ء کو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے نام ایک کھلے خط میں انہیں صورتحال سے آگاہ کیا جس کے مطابق پاکستان میں اس دن سرکاری گوداموں میں 75 لاکھ ٹن جبکہ پرائیویٹ لوگوں کے پاس 10 لاکھ ٹن گندم موجود تھی جبکہ 13 جولائی سے 15 اپریل تک کیلئے ملکی ضروریات صرف 72 لاکھ ٹن تھیں مگر اسکے باوجود بھارت سے تو نہیں بلکہ سندھ کو روسی ریاستوں سے تھرڈ کلاس گندم منگوانے کی کھلی آزادی دی گئی جس سے قیتی زرمبادلہ خرچ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سندھ کی تین لاکھ ٹن کی کمی پاسکو کے گوداموں سے 5 لاکھ ٹن لے کر بھی دور کی جاتی مگر امپورٹ مافیا اور کمیشن مافیا مل کر ایسی واردات ڈالتے ہیں کہ حکمرانوں کی آنکھوں پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے۔ پنجاب میں گندم 40 لاکھ ٹن سے زائد موجود ہے اور سرکاری گوداموں سے گندم کے اجراء کا اعلان ہوتے ہی مارکیٹ کی گندم باہر آئی اور حالات یہ ہیں کہ سرکاری گوداموں سے جو اوسط گندم فروخت ہوتی تھی پندرہ دن گزرنے کے باوجود ابھی بھی ایشونہیں ہو سکی جو اس بات کا ثبوت ہے۔ کہ مناسی پلاننگ اور اعداد و شمار کے غلط اندازے غذائی بحران پیدا کرنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں بعض ذخیرہ اندوزوں نے میڈیا کو ایسے حق میں ایسے استعمال کیا کہ ملک میں کال پڑنے والا ہے جس سے گندم کی قیمتیں جو 1100 اور اسکے لگ بھگ خریدی گئی تھیں 1450 روپے فی من تک جا پہنچی جس سے نہ صرف صارفین کے ذہن متاثر ہوئے بلکہ آٹا بھی انکی قوت خرید سے باہر ہوتا چلا گیا۔ گویا وفاقی وزارت خوراک کا نہ ہونا مسئلہ نمبر1‘ مناسب پلاننگ کا نہ ہونا‘ مسئلہ نمبر 2 ‘ ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھُٹی مسئلہ نمبر 3 اور بیورو کریسی کی طرف سے سرکاری گندم کے اجراء میں بے جا تاخیر اس سارے بحران کی وجہ بنی جو گذشتہ دنوں ماہ رمضان کے بعد سے چل رہا تھا حالانکہ دیکھا جائے تو پنجاب حکومت نے میاں شہبازشریف کے وژن کے مطابق رمضان میں آٹے کی بڑی مقدار صارفین کے لئے کم نرخوں پر فراہم کی جس پر کوئی چینل انگلی نہیں اٹھا سکا مگر جہاں اچھے کام ہوتے ہیں وہاں بعض قوتیں برے کاموں کیلئے بھی مچل رہی ہوتی ہیں اور سرکاری گندم کے اجراء نرخ پر بری قوتیں غالب آئیں اور میاں صاحب سے ایک ایسی سمری پر دستخط کروائے گئے جو عوام کیلئے سراسر گھاٹے کا سودا تھا۔ اور 1330ء روپے فی من گندم جو فلور ملز کو 1400 روپے فی پڑیگی اور عوام کو 800 روپے کا تھیلا فراہم کروائے گی جس سے یقیناً ہمارے غذائی تحفظ کے دوسرے نکتہ نظر کو تقویت فراہم ہو گی کہ چیزیں کہ اتنی مہنگی کر دو کہ لوگوں کی پہنچ میں بھی نہ رہیں۔ تو پھر بتائیے کہ 40 لاکھ ٹن گندم کے ہونے کے کیا معنی ہوئے؟ میرے خیال میں حکومتی پالیسی اور سیاسی منشوردونوں کوساتھ لے کر چلنا چاہئے۔

مزیدخبریں