آغا شورش کاشمیری کی شہرت اگرچہ بے پناہ صلاحیتوں کے حامل صحافی اور دلوں کو گرما دینے والے بے مثل خطیب کے طور پر زیادہ تھی مگر وہ تحریک آزادی کے ان عظیم کارکنوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے برصغیر کی آزاد ی کی خاطر اپنی بھرپور جوانی کے دس گیارہ برس انگریز سامراج کی جیلوں میں گزارے۔ وہ صرف اٹھارہ سال کے تھے کہ 1935ء میں چار ماہ تک قید میں رہے پھر 1937ء میں سال بھر کے لئے جیل میں رہے۔ 1939ء میں گرفتاری کے بعد وہ پورے 5 سال تک پس دیوار زنداں رہے۔ اس عرصہ کے دوران انہیں بے پناہ جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن مجاہد آزادی شورش کاشمیری نے انگریز حکمرانوں کی فرعونیت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی آزادیٔ تحریر و تقریر اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لئے جہاد کرتے ہوئے شورش کاشمیری کو کئی مرتبہ زندان کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا لیکن وہ زندگی بھر ظلم و جبر کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ شورش کاشمیری نظم و نثر دونوں پر قدرت رکھتے تھے اور اگر ان کی ادارت میں شائع ہونے والے ہفت روزہ چٹان سے شورش کاشمیری کے منظوم کلام اور نثری تحریروں کو سلیقے سے مرتب کیا جائے تو کئی ناقابل فراموش کتابیں شائع کی جاسکتی ہیں۔ شورش کاشمیری کی جرأتوں، جذبوں اور ولولوں سے نوجوان نسل کو شناسائی بخشنے کے لئے ہفت روزہ چٹان میں بکھری ہوئی تحریروں کو کتابی صورت میں محفوظ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں شورشیات کے موضوع پر کام کرنے کے لئے ایک اکیڈمی کی تشکیل ناگزیر ہے اور اس ضمن میں آغا شورش کاشمیری کے بیٹوں مسعود شورش اور مشہود شورش کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے میدان عمل میں آنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے آبروئے صحافت مجید نظامی کی سرپرستی بھی شورش کاشمیری کے خاندان کو میسر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شورش کاشمیری کی برسی پر صرف ایک جلسے کے اہتمام کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ شورش کاشمیری کی نادر اور معرکتہ الآرا نگارشات کو محفوظ کرنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے۔
آغا شورش کاشمیری زندہ تھے تو ان کا اشاعتی ادارہ ’’مطبوعات چٹان‘‘ بھی بہت فعال تھا۔ اس ادارے نے شورش کاشمیری کی 18 کے قریب تصانیف اور تالیفات شائع کیں جن میں ان کے دو شعری مجموعے بھی شامل ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ابوالکلام آزاد اور حمید نظامی پر شورش کاشمیری کی کتابیں لاجواب ہیں۔ اقبال اور قادیانیت، تحریک ختم نبوت اور فن خطابت کے موضوع پر شورش کاشمیری کی کتابیںنوجوان نسل کو ضرور پڑھنی چاہئے۔ ان کی کتابوں پسِ دیوار زنداں اور شب جائے کہ من بودم کے مطالعہ کے بعد ہی ہماری نئی نسل کو شورش کاشمیری کے زور قلم کو پوری طرح اندازہ ہو سکتا ہے۔ شورش کاشمیری کو ہم سے بچھڑے ہوئے 38 سال گزر چکے ہیں مگر ان کے قلم سے روشن کئے ہوئے چراغ آج بھی پاکستان کی نظریاتی منزل کی سمت ہماری حقیقی رہنمائی کرسکتے ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے انگریزی سامراج کے خلاف شورش کاشمیری کی جدوجہد اور لازوال قربانیوں اور قیام پاکستان کے بعد ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لئے شورش کاشمیری کی بے مثال خدمات کے ریکارڈ کو محفوظ کرنا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ہمارے عہد کی نوجوان نسل شورش کاشمیری کی حیات کا مطالعہ کرکے اپنے اندر بھی جادۂ حق پر چلنے کے لئے حوصلہ اور استقامت پیدا کرے۔ قومی مقاصد کے لئے قربانیاں دینے کا بے پناہ جذبہ شورش کاشمیری میں موجود تھا۔ آج جب ہم اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شورش کاشمیری جیسا ایک بھی مرد مومن، مرد میدان اور قوم کی خاطر قربانیاں دینے والا ایک سیاست دان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شورش کاشمیری اپنی تحریروں اور تقاریر میں اکثر شاد عارفی کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے…؎
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو ۔۔۔ گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
شورش کاشمیری کے نزدیک سیاست تماش بینی نہیں بلکہ قوم و ملک کی خاطر ایک مقدس فرض ادا کرنے اور قربانیاں دینے کا نام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں قومی آزادی کے لئے شورش کاشمیری کی عمر عزیز کا طویل عرصہ جیل کی نذر ہوگیا۔ اپنی ہی سیاسی جدوجہد کے پس منظر میں شورش کاشمیری نے یہ اشعار کہے تھے۔…؎
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا ۔۔۔ جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
از افق تابہ افق خوف کا سناٹا تھا ۔۔۔ رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
اب ہمارے قافلے میں ایک بھی شورش کاشمیری جیسا امیر کارواں نہیں اور نہ ہی اقلیم صحافت کا ایسا تاجدار جو ظفر علی خاں کی طرح بیک وقت ایک آتش نوا مقرر، ایک صاحب اسلوب ادیب، ایک قادرالکلام شاعر اور ایک جرأت مند و بہادر سیاست دان بھی ہو۔ شورش کاشمیری نے ’’ہمارا جواب پیدا‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ میں اُسی نظم کے ایک شعر پر اپنا یہ کالم ختم کرنا چاہتا ہوں…؎
تاریخ مرے نام کی تعظیم کرے گی ۔۔۔ تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا
تاریخ مرے نام کی تعظیم کرے گی
Oct 27, 2013