نیویارک ( نمائندہ خصوصی +نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) امریکہ نے پاکستان، یمن اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملوں کا دفاع کرتے ہوئے انہیں ضروری قرار دیا ہے جبکہ ڈرون حملوں پر چین، برازیل اور وینزویلا نے امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کے نمائندوں کا ڈرون حملوں کے حوالے سے خصوصی اجلاس نیویارک میں ہوا جس میں پہلی بار ڈرون حملوں کو موضوع بحث بنایا گیا۔ اس موقع پر امریکی نمائندوں نے پاکستان، یمن اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما سمجھتے ہیں کہ القاعدہ کے اہداف کیخلاف ڈرون حملے منصفانہ، قانونی اور ضروری ہیں۔ امریکی وفد نے کہا کہ ڈرون حملوں کیلئے صدر اوباما نے نئی گائیڈ لائنز متعارف کرانے کی خاطر اقدامات کئے ہیں۔ مباحثے میں ڈرون حملوں پر چین، برازیل اور وینزویلا نے امریکی انتظامیہ پر شدید تنقید کی ۔ وینزویلا نے ڈرون حملوں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں مارے گئے 1800 افراد میں صرف 10 فیصد مطلوبہ افراد تھے۔ چین نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام ملکوں کی خودمختاری اور شہریوں کے قانونی حقوق کا سب کو احترام کرنا چاہئے۔ مباحثے میں ڈرون حملوں سے متعلق اقوام متحدہ کی دو رپورٹس لکھنے والے مصنفین نے بھی خطاب کیا۔ ان رپورٹوں میں ڈرون حملوں پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ خصوصی اجلاس میں نمائندوں نے امریکی ڈرون حملوں کو پہلی بار شدید تنقید کا نشانہ بنایا ‘پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کے رکن ممالک چین، برازیل اور وینزویلا نے ڈرون حملوں کے معاملے پر امریکہ پرکڑی تنقید کرتے ہوئے امریکی ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ چین نے کہا کہ ڈرون حملے شہری حقوق اور ریاستی خودمختاری کے احترام کے خلاف ہیں۔ برازیل نے ڈرون حملوں کو بین الااقوامی قوانین کیخلاف اور وینزویلا کے نمائندوں نے امریکی ڈرون حملوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے کہا کہ ڈرون حملوں کا شہریوں پر اثرات کا اندازہ لگانا اور ان دعو¶ں کا جائزہ لینا مشکل ہے کہ ڈرون نے اپنے اہداف کو کس حد تک نشانہ بنایا۔ وفد نے کہا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے ڈرون کے حوالے سے نئی حکمت عملی تیار کی ہے۔ ڈرون حملوں سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اہم کامیابی ملی ہے۔ اقوام متحدہ کے دو تفتیش کاروں نے کہا کہ ڈرون پروگراموں میں اختیار کئی گئی، رازداری شہری ہلاکتوں کے تعین کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے، امریکہ اور دیگر ممالک یہ پروگرام شفاف بنائیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں بین ایمرسن اور کرسٹوف ہینز نے اس موضوع پر اپنی دو مختلف رپورٹوں میں کہی جو اجلاس میں پیش کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ملکوں کو ڈرون ٹیکنالوجی حاصل ہوتی جا رہی ہے، ڈرون حملوں کے بارے میں مختلف حکومتوں میں اتفاقِ رائے نہیں، یہ صورتحال انارکی کا باعث بن سکتی ہے۔ ایمرسن نے کہا کہ امریکہ دوسرے ملکوں میں دہشت گردانہ اہداف پر اپنے بعض ڈرون حملوں کو یہ جواز دیتے ہوئے درست قرار دے چکا ہے کہ اسے القاعدہ کے ساتھ مسلح محاذ کا سامنا ہے جو سرحدوں سے آزاد ہے۔ انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی پر اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار بین ایمرسن نے کہا کہ دیگر ملکوں نے اس تجزیہ سے اتفاق رائے نہیں کیا، بعض نے اپنا جداگانہ مو¿قف بیان کیا ہے۔ ہم سب یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جب دیگر ملکوں نے بھی یہ ٹیکنالوجی اسی طرح استعمال کرنا شروع کردی تو ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا، جو امن و سلامتی کے بریک ڈاو¿ن کا سبب بن سکتی ہے۔ ایمرسن نے رپورٹ میں کہا کہ انہیں پاکستان کی حکومت سے اعداد و شمار موصول ہوئے ہیں، جن کے مطابق وہاں 2004ءسے ڈرون حملوں کے نتیجے میں 2200 افراد جاںبحق ہوچکے ہیں، جن میں سے کم از کم 400 شہری تھے تاہم ان اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق مشکل ہے۔ ایمرسن نے کہا کہ پاکستان اور یمن میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں سی آئی اے کی شمولیت نے شفافیت کی راہ میں ایسی رکاوٹ کھڑی کی ہے جسے عبور کرنا ناممکن ہے۔ ماورائے عدالت ہلاکتوں پر اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار کرسٹوف ہینز نے رواں ہفتے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ڈرون حملوں کے بارے میں جاری کی گئی رپورٹوں پر امریکہ کے ردعمل پر مایوسی ظاہر کی۔ ہینز اور ایمرسن دونوں کا یہ کہنا تھا ہلاکت خیز حملوں کی بنیادی وجہ ڈرون ٹیکنالوجی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے معاملات میں ڈرون ٹیکنالوجی ہدف کے درست تعین کا موقع فراہم کرتی ہے اور شہری ہلاکتوں میں کمی کر سکتی ہے۔ ہینز کا کہنا تھا کہ ڈرون ٹیکنالوجی تو قائم رہے گی تاہم اس کے قانونی دائر کار پر توجہ مرکوز کی جانا چاہئے کہ اسے کب استعمال کرنا ہے۔ بین ایمرسن کی پیش کردہ رپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب مسعود خان نے ایک بار پھر امریکہ سے ڈرون حملے فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں سے عام شہریوں کی اموات بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انتہاپسندی کو فروغ ملتا ہے۔ ڈرون حملوں کی وجہ سے انتہا پسند انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ڈرون حملوں سے عام شہریوں کی اموات بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انتہاپسندی کو فروغ ملتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سر زمین پر فوری طور پر ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کا ہلاک و زخمی ہونا نہ صرف بین الاقوامی ہیومینیٹرین قانون بلکہ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ڈرونز کا استعمال پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی وحدت کی بھی خلاف وزی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جرائم کی ذمہ داری کے فرق، جرائم اور سزا کے درمیان تناسب اور احتیاط جیسے مسلمہ اصولوں پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔ بنیادی میدان جنگ اور ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے مقامات کے درمیان جغرافیائی روابط موجود نہیں۔ سٹرٹیجک کارروائی کو سیلف ڈیفنس کے تحت جائز اقدام ثابت کرنے کیلئے اس کا انٹرنیشنل ہیومینیٹرین لاءاور انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لاءکے تحت ہونا ضروری ہے۔ قانونی لحاظ سے ضروری ہے کہ اس جنگ کے جغرافیائی دائرہ کار کا تعین کیا جائے۔ پاکستان افغان بارڈر کے تناظر میں نان انٹرنیشنل آرمڈ کانفلکٹ کے تحت ڈرون حملوں کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں ہونیوالا ہر ڈرون حملہ یہ خوفناک اندیشے پیدا کرتا ہے کہ اب جلد دہشت گردوں کی طرف سے جوابی کارروائی کی جائیگی۔ یہ حملے تمام پاکستانیوں کو دہشت گردی کے خطرات سے دوچار کر دیتے ہیں، ان حملوں میں غیر انسانی انداز میں مارے جانیوالے عام شہریوں کے عزیزوں اور رشتہ داروں پر ان حملوں کے مرتب ہونے والے نفسیاتی اثرات نفرت اور انتہا پسندی کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح ڈرون حملوں کے برعکس نتائج پیدا ہو رہے ہیں۔ میں آپ کو باضابطہ طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت نے ڈرون حملوں کیلئے کوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ رضامندی یا منظوری دی نہ ہی انہیں قبول کیا ہے۔ پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد، عورتوں اور بچوں کی ہلاکت کے حوالہ سے کوئی ابہام نہیں۔ نہتے اور بے گناہ شہریوں کی ہلاک بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہم پاکستان کی سرحدوں کے اندر ڈرون حملے فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ وزیراعظم، ہماری پارلیمنٹ اور آل پارٹیز کانفرنس نے کیا ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے 23 اکتوبر کو واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات میں بھی ان کو یہی بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملے فوری بند کئے جائیں۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان کے اس مطالبہ پر بین الاقوامی انسانی قانون کے عین مطابق ہے، پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے ایلچی پر زور دیا کہ وہ اپنی حتمی رپورٹ میں ڈرون کے استعمال کے خلاف زیادہ سخت سفارشات کو شامل کریں، یہ ڈرون حملوں میں انسانی جانوں کے ضیاع اور بے گناہوں کو زخمی اور معذور بنانے سے روکنے کیلئے زیادہ سخت نظام کی تشکیل کا باعث بنیں گی۔ انہوں نے اس امید کااظہار کیا کہ خصوصی ایلچی کی حتمی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے فورم پر ڈرون حملوں کے جواز کی بحث کو آگے بڑھانے کیلئے قابل عمل اقدامات تجویز کریں گے تاکہ انسان اور انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے تباہ کن نتائج پر بحث کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈرون حملوں کے جواز پر بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مثبت انداز میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔
اسلام آباد (اے این این) دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے ڈرون حملوں کے معاملے پر اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستانی م¶قف کی حمایت کرنے پر چین، برازیل اور وینزویلا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملوں کا معاملہ اب عالمی مسئلہ بن چکا ہے جسے دبایا نہیں جاسکتا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد اس معاملے پر بحث کرنا رکن ممالک کا حق ہے۔ حکومت کی موثر حکمت عملی نتیجہ خیز ہوگی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے معاملے پر کونسل آف یورپی کنونشن کے ساتھ معاملات طے پانے کے بعد مثبت پیشرفت ہو گی۔ سرکاری ٹی وی سے انٹرویومیں ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان ڈرون حملوں کے معاملے پر دوٹوک م¶قف اختیار کریگا جس کے بعد ملک کے اندر رائے عامہ ہموار ہوئی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی معاملات اقوام متحدہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے پر ٹھوس م¶قف اختیار کیا، حکومت پاکستان نے یہ معاملہ سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور قانون کمیٹی سمیت مختلف فورمز پر م¶ثر طریقے سے اٹھایا ہے۔ مارچ میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حوالے سے خصوصی نمائندے بن ایمرسن نے پاکستان کا دورہ کر کے ایک رپورٹ تیار کی تھی جو اقوام متحدہ میں پیش کردی گئی ہے، اب رکن ممالک کو اس معاملے پر بحث کا حق مل گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں چین، وینزویلا اور برازیل نے کھل کر پاکستانی م¶قف کی حمایت کی ہے جس پر ہم انکے شکرگزار ہیں۔ اسکے علاوہ بھی کئی ملکوں نے ڈرون حملوں پر کھل کر اعتراض کیا اور ان حملوں کی قانونی حیثیت اور انسانی حقوق سے متعلق سوالات اٹھائے اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جمہوری ملکوں میں رائے عامہ کی بڑی اہمیت ہے، ڈرون حملوں کے معاملے پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کیخلاف مسلسل رائے عامہ بیدار ہورہی ہے، یہ صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے جسے دبایا نہیں جاسکتا، ہمیں اپنی حکمت عملی پر اعتماد ہونا چاہئے، اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔
پاکستان/ ڈرون حملے