اقتصادی رابطہ کمیٹی سے سپر مونجی کی امدادی قیمت بڑھانے کا مطالبہ

  پاکستان کسان اتحاد کی جانب سے گزشتہ دنوں احتجاجی مظاہروں  کا انعقاد کیا گیا ۔ صوبہ  بھر  میں   ان   دنوں نکالی گئی احتجاجی  ریلیوں میں کسان  تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ  زرعی اجناس ،چاول (مونجی)، کپاس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ    بجلی کے  نرخوں سمیت ، کھاد، زرعی ادویات ، ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی جائے ۔    حالیہ سیلاب میں  صوبے میں زراعت پیشہ  افراد کوسب سے زیادہ نقصان  اٹھانا پڑاہے ۔ جس میں مونجی ، کماد ، کپاس کی کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں ۔لہٰذا حکومت سروے کر کے کاشتکاروں کو امداد کی صورت میں مالی پیکج دے ۔ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ اگر کسی طبقے کا استحصال ہواہے تو وہ کسان اور زراعت پیشہ افراد ہیں۔  بھارت کے مشرقی پنجاب اور  اپنے صوبہ  پنجاب میں زراعت اورکسانوں کی ترقی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے مقابلے میں بھارتی حکومت نے کسانوں  کو مفت  بجلی کی سہولت دے رکھی ہے ۔ بھارتی پنجاب میں کھاد، بیج ، زرعی ادویات کی  انتہائی  سستے داموں فراہمی ، زرعی مشینری پرانتہائی کم  ٹیکس اور  غلہ منڈیوں میں کسان  سنٹر وں میں  کسان کو  ہر ممکن سہولت دی جاتی ہے۔ زرعی اجناس کی قیمتو ں کے تعین کے وقت کسانوں اور کسان تنظیموں سے معاونت لی جاتی ہے لیکن پاکستان میں صورت حال  اس کے برعکس ہے۔ جہاںکپاس اور چاول بمپر کراپس ہیں اس سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہوتاہے لیکن ان فصلوں کی پیداوار میں اجافے اور اس کیلئے کاشتکاروں کی بھلائی  کا کسی حکومت نے نہیں سوچا کہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کسان ہیں ،لیکن ان کا حق سرمایہ دار ، تاجر طبقہ لے جاتاہے ۔ پنجاب میں آئندہ ماہ نومبر کے آغاز میں سپر مونجی چاول کی فصل آنے والی ہے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ ابھی تک سپر مونجی کی امدادی قیمت کا اعلان قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی حکومت کی جانب سے نہیں کیا گیا ۔ دوسری طرف بجلی ،سی این جی ،۱ یل پی جی گیس کی قیمتوں میں آئے روز ہوشربا اضافہ ہونے سے عام اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ۔ محنت کسان کرتے ہیں مالی فائدہ کاروباری طبقہ  سمیٹ رہا ہے۔ لہٰذا  ضروری ہے کہ سپر مونجی کی امدادی قیمت تین ہزار روپے فی من مقرر کی جائے۔ اسی طرح کپاس پھٹی کی امدادی قیمت پانچ ہزار روپے فی من   اور گنا کی امدادی قیمت 270روپے فی من رکھی جائے ۔ پنجاب جو اناج گھر کہلاتاہے وہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بیاج گھر میں بدلتا نظر آرہاہے ۔ سبزی کسان کے کھیتوں سے ٹکا ٹوکری قیمت میں حاصل کی جاتی ہے  جسے  شہروں میں سونے کے بھائو فروخت ہوتی دیکھ کر کاشتکاروں کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں  ۔  حصول  اقتدار  کیلئے پاکستان کے  شہری حصوں کا جس قدر کردار ہو سکتا ہے دیہی علاقوں کے مکینوں کو بھی اس میں اسی قدر اہمیت حاصل ہے ۔ اگرحکومت نے چاول ، کپاس کی فصلوں کی امدادی قیمت کسانوں کی  مانگ کے مطابق مقرر نہ کی تو  اسے ملک کے عوام میں غیر مقبول ہونے میں  دیر نہیں لگے گی۔

ای پیپر دی نیشن