گزشتہ روز عمران خان سوہنی کی دھرتی گجرات پر عوام کا مہیوال بن کر اترا تو اس کے چاہنے والوں کا ایک جم غفیر گجرات شہر کی حدوں میں سما نہ پایا۔ یہ مہیوال اپنے ساتھ یہاں ایک سوال بھی لیکر اور وہ یہ کہ کیا ڈاکٹر طاہرالقادری کی اسلام آباد سے رخصتی کے بعد ان کا دھرنا ناکام ہو چکا یا اپنی افادیت کھو چکا؟ تو چناب کے انہی کناروں سے جواب آیا کہ یہ تو ابتدا ہے ایک نئے طوفان کی جو عمران خان کی زبان میں سونامی کہلاتا ہے اور وہ یوں کہ اسی جلسے میں انہوں نے ملک بھر سے اپنے چاہنے والوں کو 30 نومبر کو اسلام آباد پر ایک بار یلغار کرنے کی دعوت دیدی اور جیسا کہ کہتے ہیں عمران خان تیرے جانثار بے شمار‘ بے شمار تو ہمیں یقین ہے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں موجود عمران خان کے ان پرستاروں میں سے ایک فیصد پرستاروں نے بھی اسلام آباد کا رخ کیا بلکہ یقینا کریں گے تو یہ تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے بشرطیکہ حکومت اس میں رخنہ اندازی نہ کرے۔ یعنی حسب سابق ناحق رکاوٹوں کا کوئی لچ نہ تلے اور اگر وہ بصیرت سے عاری ہے اور ایسا کچھ ایک بار پھر کرے گی تو خدشہ ہے اب کے اسلام آباد میں دما دم مست قلندر ہوگا کہ حکومت کیلئے اس کا سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ اس دھماچوکڑی سے حکومت کا جانا ہی ٹھہر جائے اور اگر حکومت نہ بھی جائے تو سسک سسک کے جینا اس کا مقدر بن جائے اور میاں نوازشریف کو ایک بار پھر علامہ اقبال کا یہ پسندیدہ شعر دہرانا پڑے…؎
اے طائر لاہوتی‘ اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
تو یہاں یہ بھی ممکن ہے میاں نوازشریف اس کل سے زچ ہوکر اچانک مڈٹرم الیکشن کا اعلان کردیں یا کرنے پر مجبور کر دیئے جائیں۔ اس گھمبیر صورتحال کے باوجود وہ اگر اپنے اس مؤقف پر مبضوط رہے کہ وہ عوام کے منتخب شدہ وزیراعظم ہیں‘ استعفیٰ کیوں دیں؟ تو یہ ان کی خوش فہمی ہوگی کہ عمران خان کی نشاندہیوں اور مایوسیوں اور میڈیا کی تحقیق و تشہیر کے بعد 2013ء کے انتخابات جن کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم بنے‘ اب اس قدر متنازعہ اور مشکوک ہو چکے ہیں کہ بہت کم لوگ ان پر اعتبار کرنے کیلئے تیار ہیں تو ایسے میں اس حکومت کے قائم رہنے کا کیا جواز بنتا ہے اور خاص طورپر اب جبکہ ملک میں کئی سالوں سے جاری دہشت گردی کی تباہیوں اور ہولناکیوں کیساتھ ساتھ پچھلے کئی ماہ سے جاری ہونے والے سیاسی خلفشار نے اس قدر انتشار پھیلا دیا ہے کہ ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے سے پیچھے لڑھکتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہماری اکانومی زمیں بوس ہو چکی ہے۔ ملک کے اندر نہ کوئی صنعتی کاروبار ہو رہاہے نہ ملک میں باہر سے کوئی سرمایہ آرہا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے دوست ممالک کے سربراہوں نے بھی پاکستان آنے سے توبہ کر لی ہے۔ اور تو اور ہمارے کھیلوں کے میدان تک ویران ہو چکے ہیں کہ باہر سے کسی ملک کی ٹیم یا کھلاڑی یہاں آنے سے انکاری ہیں تو اس سے لامحالہ عوام کا بھی نام نہاد جمہوریت سے ایمان اٹھتا چلا جا رہاہے تو یہاں اب میاں نوازشریف کی حب الوطنی اور سیاسی ادارک کا بھی امتحان ہے کہ وہ سمجھ سکیں تو اس وقت کچھ ایسا ہی فیصلہ کر ڈالیں جس سے سانپ بھی مر جائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہاں سانپ سے مراد دشمن ہی لیں اور لاٹھی ملک کو سمجھیں اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از م مڈٹرم الیکشن کا ہی اعلان کرکے عوام کو رام کر دیں اور پھر اس کی تیاری میں لگ جائیں تو ہو سکتاہے وہ ایک بار پھر مظلوم بن کر اگلے انتخابات میں اپنی حیثیت برقرار رکھ سکیں تو یہاں یہ بھی واضح رہے کہ وہ اگر یونہی ’’میں نہ مانوں‘‘ کی ضد پر اڑے رہے اور بہت دیر کر دی تو ہو سکتا ہے گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ان کا مستقبل بھی مخدوم ہو کر رہ جائے اور وہ آخر کار قصہ پارینہ بن کر تاریخ میں دفن ہو جائیں۔ اب ان کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ انہیں چاہئے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر جلد کوئی عقلمند فیصلہ کر لیں اور اس لئے بھی کہ عمران خان ان کا استعفیٰ لئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اس کا کیریئر گواہ ہے کہ وہ جس کام کا عہد کر لے‘ اسے کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ہم نے تو عمران خان کے دادا ڈاکٹر محمد عظیم خان مرحوم کو بھی دیکھ رکھا ہے۔ وہ بھی اپنے زمانے میں میانوالی کی ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ ایک دیندار‘ اپنی روایات‘ اصولوں پر سختی سے قائم رہنے والی مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ اس لئے تو کچھ ہمارے بزگ کہتے ہوئے سُنے جاتے ہیں عمران خان اپنے دادا پر گئے ہیں تو یہاں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عمران خان اپنی اس تگ و دو میں پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ نتائج کچھ بھی ہوں‘ وہ آخری بال تک ڈٹا رہے گا اور یہاں یہ بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے معراج پر ہے۔ وہ جو بھی کہتا ہے‘ ملک کی ایک بڑی اکثریت اس کو سچ مانتی ہے اور اس کے ارادوں اور خوابوں پر یقین رکھتی ہے اور جب یہ آواز آتی ہے کہ ڈٹ کے کھڑا ہے اب عمران‘ نیا بنے گا پاکستان وہ اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ تو انہیں وہ دیدہ ور قرار دے رہے ہیں۔
ڈٹ کے کھڑا ہے اب عمران!
Oct 27, 2014