27 اکتوبر جب بھارت ریاست جموں کشمیر پر حملہ آور ہو ا

25اکتوبر 1947ء کوڈیفنس کمیٹی آف انڈیا کا ایک اہم ترین اجلاس بھارت کے دارالحکومت مو قع دہلی میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی صدارت میں ہوا جس میں ریاست جموں کشمیر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا اور 27اکتوبر کی رات بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں۔بات یہ تھی کہ جب ہندوستان کی تقسیم اور پاکستا ن کا قیام یقینی ہو گیا تو کانگریس اور مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خدشہ لاحق ہوگیا۔ریاست کشمیر کو ہاتھوں سے نکلنے سے بچانے کے لئے مہاراجہ نے جو اقدامات کئے ان کی تفصیل بہت طویل ہے مختصر اََ یہ ہے کہ مہاراجہ نے ایک طرف پاکستان سے معاہدہ قائمہ اوردوسری طرف ریاست جموںکشمیرمیںبڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کی تیاریاں کی جانے لگیں۔ مئی 1947ء میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنا اسلحہ چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو بحق سرکار جمع کروادیں۔ دو ماہ بعد مہاراجہ کی ایما پر آرایس ایس، ہندو مہاسبھا اور دیگر ہندو جنونی تنظیموںکے تقریباََ پچاس ہزار رضاکار ریاست پہنچے جنہوںنے جموں کو اپنا ہیڈکورٹر بناکر پوری ریاست میں خفیہ شاخیں قائم کیں، مہاراجہ کی فوج کے افسربڑے پیمانے پر ان بلوائیوں، قاتلوں اور حملہ آوروں کوہتھیار بنانے ،چلانے،مسلمانوں کے قتل عام ،عصمتوں کی آبروریزی،ا ٓگ لگانے اور املاک لوٹنے کی تربیت دینے لگے ۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی سکھ اور ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہیدکیا ،آبادیاں ویران کردیں،مسجدیں جلادیں، گھر لوٹ لئے، عفت ماٰب خواتین کی عصمت دری کی اوربچے ذبح کئے ۔درجنوں دیہات ایسے بھی تھے کہ جن کے تمام مردوزن اور بچوں کو گولیوں سے اڑادیاگیا۔ایک طرف ریاست کے اندر مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام تھا تو دوسری طرف 27اکتوبر کو انگریز اور بھارتی فوج کا ریاست پر بھر پور حملہ تھا۔گویا مسلمانوں کے لئے دوہری افتاد تھی۔ وہ ریاست کے اندر محفوظ تھے اور نہ باہر ان کے لئے جائے پناہ تھی۔قیامت کا سماں تھا۔زمین شعلے اگل رہی تھی اور آسمان سے آتش و آہن کی بارش تھی ۔یوں لگتا تھا کہ جیسے 80فیصد مسلم آبادی والی ریاست سے مسلمانوں کا نام ونشاں مٹ جائے گا۔
یہ درست ہے کہ غاصب حکمران اپنی محکوم رعایا سے نفرت کرتے ہی ہیں لیکن جو نفرت ریاست کے ڈوگرے حکمران مسلمانوں سے کرتے تھے اس کی تاریخ میں کم ہی مثالیں ملیں گی ۔ وجہ یہ تھی کہ ڈوگرے ہندو تھے ،اس لئے اسلام اور مسلمان دشمنی ان کی رگ رگ میں شامل تھی ۔ایک سو سال پر محیط ڈوگروں کا دور حکومت ظلم و جبر، وحشت و سفاکیت سے عبارت اور تاریخ انسانی کے ماتھے کا بدنما داغ ہے ۔ڈوگرے چونکہ مذہباََ ہندو تھے اس لئے وہ انتقام،کم ظرفی، احسان فراموشی ،مشکل وقت میںبھیڑ بن جانے اور مشکل وقت نکل جانے پر بھیڑئیے کا روپ دھارنے میں اپنی مثال آپ تھے ۔
حقیقت میںدیکھاجائے تو 27اکتوبر 1947ء کوبھارت نے جو حملہ کیا وہ ریاست جموں کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست پا کستان پرتھا۔یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اہل کشمیر نے اپنا تعلق و ناطہ پاکستان سے نہ جوڑا ہوتا تو بھارت کبھی بھی کشمیر پر حملہ نہ کرتا۔اس کا مطلب یہ کہ کشمیر کے اہل وفا کو صرف پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی گئی تھی ۔ سزا و جفا کا یہ سلسلہ 67سال سے جاری ہے۔ اس کے باوجود اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی اس لئے کہ اس محبت کی بنیاد دنیوی اغراض ومفادات پر نہیں بلکہ دین اسلام پر ہے۔ہمارے بزرگ قائد سید علی گیلانی،سید شبیراحمد شاہ،میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ ،محمد یٰسین ملک ،ہماری قابل احترام بہن سیدہ آسیہ اندرابی،حریت کانفرنس کے دیگر قائدین وکارکنان اورکشمیری عوام بھارتی عزائم کی راہ میں چٹان بنے کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہے ،پاکستانی پرچم لہرارہے ،سینوں پر گولیاں کھا رہے اور عہد وفا نبھا رہے ہیں۔ان اہل وفا کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اب مقبوضہ جموں کشمیر کی ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ دے دیا ہے کہ ریاست بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی۔
ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی کشمیر سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارے سول حکمران ہوںیا فوجی سب کا کشمیر کے ساتھ دعویِ محبت رہا ہے۔ ایک محبت جواہر لال نہرو کو بھی سرزمین کشمیر سے تھی۔ نہرو کے آبائواجداد کشمیر کے ہندوپنڈت تھے۔ پنڈت ہونے کے ناطے یقینا نہرو کے اجداد کا کشمیر میں ایک مقام رہا ہو گا مسلمانوں کی طرح ان کو ستایا،تڑپایا نہیں گیا ہوگا اور نہ ہی ان کے پرکھوں کو بے بسی اور بے چارگی کی حالت میں اپنا وطن چھوڑنا پڑاہوگا۔اس کے باوجود نہرو اپنے پرکھوںکی مٹی کے ساتھ محبت کا حق اداکرنے اور اسے اپنے نئے وطن کا حصہ بنانے کے لئے آخری حد تک چلے گئے تھے، ریاست جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے تمام توانائیاں صرف کردیں اور سارے وسائل جھونک دیئے۔جنگ لڑنا پڑی تو لڑنے مرنے پر تیارہوگئے۔ نہرو نے ریاست جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے تقسیم ہند سے پہلے اور تقسیم ہند کے بعد مرتے دم تک جس طرح ظلم وجبرمکر وفریب سے کام لیااور جھوٹ پہ جھوٹ بولے اس پر بیسیوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ظاہر بات ہے آدمی ظلم وجبر اس وقت کرتا اور جھوٹ اس وقت بولتا ہے جب اس کا موقف غلط ہو۔اس کے برعکس کشمیر پر ہماراموقف درست مگر ہمارے حکمران اپنی درست بات بھی دنیا سے تسلیم کروانے میں ناکام ہیں۔وجہ یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر پر کبھی سنجیدگی اختیار نہیں کی۔خوش آئند بات ہے کہ میاں نواز شرف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مسئلہ کشمیر پر بہت جاندار موقف اختیارکیاہے۔ جنر ل راحیل شریف نے دورہ برطانیہ کے دوران بالکل صیح کہا کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈاہے۔ہمارے وزیر اعظم نے بھی دور ہ امریکہ کے دوران پاکستان میں بھارتی مداخلت اور کشمیر کی بات کرکے قوم کی ترجمانی کی ہے۔سچی بات ہے کہ اہل کشمیر اور ہماری قوم ۔۔۔۔۔موجودہ سول وعسکری قیادت سے مسئلہ کشمیر کے حل کی اس سے بھی زیادہ کوششوں کی توقع رکھتے ہیں ۔اس لئے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ،ان کی اہلیہ کلثوم نواز ،جنر ل راحیل شریف اور وزیر اعظم کی کابینہ کے بہت سے وزراء سرزمین کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میںاہم ترین عہدوں پر سرزمین کشمیر کے فرزند فائز ہوئے ہیں۔یہ سب وہ لوگ ہیں کہ جن کے بزرگ ڈوگروں کے مظالم کی وجہ سے ریاست جموں کشمیر چھوڑنے پر مجبو ر ہوئے تھے۔بنابریں ان احباب سے زیادہ بہتراہل کشمیر کے مصائب وشدائد کو کون جانتا اور سمجھتاہے۔ہم اپنے مقتدراحباب سے کہنا چاہیں گے کہ کشمیر کے ساتھ صرف ان کانسلی ہی نہیں بلکہ دین اور ایمان کا تعلق بھی ہے جو دنیا کے تمام رشتوں سے زیادہ مضبوط اور افضل ترین ہے۔ لہذا اس تعلق کو نبھانا اورمقبوضہ جمو ںکشمیر کو آزادکروانا فرض بھی ہے اور قرض بھی۔لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کشمیر کے ساتھ تعلق ماضی کا حصہ بن چکا ہے لہذاماضی کو بھول جانا چاہئے توا یسے لوگوں کویاد رکھنا چاہئے کہ اپنے ماضی کوبھول جانے والی قومیں خود کو بھول جایاکرتیں اپنی پہچان وشناخت کھو بیٹھتیں ، نشان عبرت بن جاتیںاور قصہ ماضی بن جایا کرتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن