ترقی کی راہ پر گامزن شاہراہیں

گھر پر رہنے والی زیادہ تر خواتین ایک دوسرے کی برائیاں کرنے اور کھانے پکانے کی ترکیبیں جمع کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ تمام خوفناک بیماریاں بھی انہیں لاحق ہوتی ہیں۔ جن کا ذکر وہ ہر محفل میں تفصیل سے کرتے دکھائی دیتی ہیں۔
بڑھتا ہوا وزن بھی اسی خوفناک بیماری کا حصہ ہے جسے وہ کبھی بھی کم نہیں کر سکتیں۔ چند دن گھر پر مجھے بھی ان خواتین کی طرز کی زندگی گزارنے کا بھرپور موقع ملا جس کا نتیجہ وہی نکلا جو متوقع تھا۔ یعنی مجھے بھی ایسی نا گہانی امراض نے آ جکڑا جن کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پھر احساس ہوا یہ فارغ رہنے اور سستی کا شاخسانہ ہے۔ گو کہ ان سے لڑنا ابھی کافی مشکل ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ سستی اور فراغت جس میں آپ کوئی تعمیری کام نہیں کرتے ہڈیوں کو زنگ کی طرح کھا جاتی ہے۔ تعمیری کام میں صرف آپ کا دماغ ہی انوالو نہیں ہوتا بلکہ آپ کے جسم کا ہر حصہ ایکٹو رہتا ہے۔ الرجی جیسی بیماری سے صرف دماغ کو مصروف رکھ کر چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جب انسان کسی تعمیری کام اور سوچ میں مصروف ہوتا ہے تو اسے جسمانی تکالیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے ٟریڑھ کی ہڈی کی کوئی بھی تکلیف بہت شدید ہوتی ہے، اگر مسئلہ نروز کا ہے تو اس کے درد کو پورے جسم میں ہڈیوں کے ٹوٹنے جیسی تکلیف کی صورت میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لیکن آپ کسی انتہائی دلچسپ ناول کو پڑھ رہے ہوں کچھ لکھ رہے ہوں فلم دیکھ رہے ہوں یا پینٹنگ بنا رہے ہوں کسی دوست سے گپ لگا رہے ہوں آپ اپنی تکلیف کو یکسر بھول سکتے ہیں۔ تعمیری سوچ اور کام سے انسان کے جسم پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ اس مثبت سوچ کے بل بوتے پر مضبوط قوت ارادی کا مالک بھی بن سکتا ہے اور بیماریوں سے چھٹکارہ بھی حاصل کر سکتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ ڈاکٹر کے پاس نہ جایا جائے لیکن دوا کے ساتھ علاج لمبا جبکہ قوت ارادی کے ساتھ علاج کی مدت کم ہو سکتی ہے۔ گھر سے باہر نکلنے سیرو تفریح کرنے روزانہ واک پر جانے اور ورزش کرنے کے علاوہ تعمیری سوچ معاشرے کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کرتی اپنی صحت بھی قائم رہتی ہے۔ روایتی خواتین کی طرح چند دن گھر پرگزار کر لاہور شہر میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ تو مجھے ہر دوسری سڑک کھدی ہوئی دکھائی دی۔ کئی راستے بند اور متبادل راستوں پر اس قدر رش تھا کہ گاڑی نے رینگتے ہوئے سفر طے کیا۔ ان میں کئی روڈ ایسے ہیں جو ابھی چھ ماہ اور سال پہلے بالکل نئے بنائے گئے ہیں ۔ جگہ جگہ ابھی نئی بننے والی سڑکوں کی کھدائی دیکھ کر ساری مثبت اور تعمیری سوچ کا بیڑا غرق ہوتا نظر آیا کیونکہ دنیا بھر میں تعمیری منصوبہ جات مکمل منصوبہ بندی کے بعد شروع کیے جاتے ہیں۔ اس پر آنے والے وقتوں میں ممکنہ تبدیلیوں کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے۔ اس سے آبادی کو کیا کیا فائدے یا نقصانات ہو سکتے ہیں ان کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے اور پھر ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برٹش راج کے دوران بنائی گئیں بہت سی سڑکیں، پل، ہیڈ اور بچھائے گئے ریلوے ٹریکس ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ انگریز راج میں بنایا گیا ہیڈ بلوکی ابھی بھی اسی صورت میں قائم ہے۔ اور اس کی نئے سرے سے تعمیر کا کام دو سال پہلے شروع کیا گا جو ابھی جاری ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں فلاحی منصوبہ جات حکومتوں تک محدود نہیں ہوتے۔ حکومتوں کے بدلنے سے منصوبہ جات پر اثر نہیں پڑتا وہ چلتے رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں حکومت کے ختم ہوتے ساتھ منصوبہ بھی دم توڑنے لگتا ہے۔ ناقص میٹریل سے سڑکوں کی تعمیر کی جاتی ہے،کروڑوں روپے تشہیری مہموں پر لگا دیئے جاتے ہیں۔ حکومت ختم،سڑک بیٹھ گئی۔ پل گر گیا اورخبر اخبارات کی ردی میں کہیں دفن ہو جاتی ہے۔ روزانہ انہی سڑکوں کے کناروں پر مزدور پیشہ افراد اپنی روزی کی آس لگائے بیٹھے بھی دکھائے دیتے ہیں جو ہر آنے والی گاڑی کی طرف اس طرح لپکتے جیسے کسی مرتے ہوئے کے لیے کوئی زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ جب ان کو کوئی کام نہیں ملتا تو واپسی پر ان کی آنکھوں میں امید کے جلتے دیوں کی جگہ گہرا درد اور نمی کا ایسا دریا ہوتا ہے جو کوئی سڑک یا پل عبور نہیں کر سکتے۔ انہی سڑکوں پر پیشہ ور بھکاریوں کے ساتھ ایک بڑھتی ہوئی تعداد غربت کے ہاتھوں مجبور اور بے بس لوگوں کی بھی ہے۔ جن کے چہرے پر ان کی زندگی کا گزرا اچھا وقت لکھا با آسانی پڑھا جا سکتا ہے ۔ اسی لاہور شہر میں جہاں جگہ جگہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے سڑکوں کے کناروں اور گرین بیلٹس پر بے گھر لوگوں کی تعداد میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ بھی ہوا ہے۔ اسی لاہور شہر میں گندے نالوں کے کنارے آباد سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ اسی شہر میں مریض تو دور کی بات ہے ہسپتال ہی دم توڑ رہے ہیں اور انہیں ابھی تک کوئی ڈاکٹر میسر نہیں آیا۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، پڑھے لکھے افراد بے روزگار ہیں اور سڑکوں کی خاک دن رات چھانتے ہیں۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ابھی ایک شہر کا حال ہے۔ ایسے میں اورنج ٹرینوں، میٹرو بسوں ٟ پلوں ٟ سڑکوںکی بجائے انسانوں کی تعمیر کی ضرورت ہے ۔ لوگ آسودہ ہوں گے تو جرائم کی شرح کم ہو گی۔ صحت مند اور پڑھے لکھے افراد ذہنی اور جسمانی طور پر ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں گے۔ جاپان کی ترقی کی وجہ اس میں خوا ندگی کی شرح کا سو فی صد ہونا ہے لیکن ہمارے ہاں تعلیم، صحت اور یہاں تک کہ اب قبرستانوں کے لیے رکھے گئے فنڈز سے بھی سڑکیں اور پل تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ عوام کا وہ پیسہ جو ان کے ٹیکسوں سے جمع کیا جاتا ہے اور انہیں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جانا چاہیے تھا۔ اسے بے کار میں سڑکوں اور پلوں کو ادھیڑنے اور تعمیر کرنے پر ضائع کیا جا رہا ہے۔انہی اربوں روپوں سے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کی تعمیر کی جا سکتی تھی، لیکن ایسے لگتا ہے جیسے پاکستانی عوام کی ضرورت صرف سڑکیں ہیں اور انہی سے وہ اپنی تمام تر حاجات پوری کر سکتی ہے۔ انہی سڑکوں کے اردگرد تباہ حال ہسپتال اور سکولوں کی عوام کو قطعی ضرورت نہیں کیونکہ ترقی کا زینہ صحت مند اور پڑھی لکھی قوم نہیں بلکہ سڑکیں اور پل طے کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن