فاٹا اور خیبر پختونخوا میں آپریشن ضر ب عضب کے بعد سے کوئٹہ دہشتگردوں کے فرنٹ لائن پر ہے۔ اور دوسرے بھی کئی فیکٹر بھی شامل ہیں پولیس ٹریننگ کالج میں 3خودکش حملہ آوروں نے 61تربیت یافتہ پولیس اہلکاروں ، ایف سی کیپٹن کو شہید کردیااور 3ایف سی کے3فوج اہلکاروں سمیت 24 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ میں 2016 کے دس ماہ کے دوران پانچ خودکش حملے ہوچکے ہیںجون میں سیٹلائٹ ٹاون میں حفاظتی ٹیکے لگانے والے سنٹر کے سامنے پولیس اہلکاروں پرایک خودکش حملہ ہواتھا جس میں بلوچستان کانسٹیبلری کے 13 اہلکاروں ، ایک ایف سی اہلکار اور راہگیرسمیت 16جاں بحق 16پولیس اہلکاروں سمیت 36افراد زخمی ہو گئے تھے۔ دوسرا خودکش حملہ فروری میں سیکیورٹی فورسز پرخودکش حملے میں ایک پولیس اہلکار3 ایف سی اہلکار ایک خاتون سمیت9افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 3 پولیس اہلکار 15ایف سی اہلکار 3 خوا تین اور ایک بچی سمیت 40افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اگست کے مہینے میں سول ہسپتال میں خودکش حملہ میں ایڈیشنل جج سمیت 54 سینئرز وجونیئرز وکلا ء سمیت 75 افراد جاں بحق اورسینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے یہ سب سے بڑا رواں سال کا واقعہ تھا ۔ جبکہ 24اکتوبر 2016 کوئٹہ پولیس ٹریننگ کا لج کے ہاسٹل میں2خودکش حملوں اور فائرنگ میں 61 افراد جاں بحق اور کئی شدید زخمی ہوئے۔ ایسے حملوں میں جو شہید ہو جاتے ہیں وہ تو امر ہو جاتے ہیں مگر جو زخمی ہو جاتے ہیں وہ تا حیات خود اور اہل خانہ کیلئے روگ بن جاتے ہیں کیونکہ اپاہج ہو کر بے سہارا ہو کر اکثر تو علاج سے بھی محروم رہتے ہیں اور وہ زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ موت کے انتظار کرتے ہیں۔پولیس ٹریننگ کالج کے عملے کو پہلے بھی کئی بار نشانہ بنایا گیا ہے ۔ 2 جون 2003 پولیس ٹریننگ کے12ریکروٹس کوگھر سے کالج جاتے ہوئے سریاب روڈ پرنشانہ بنایا گیا تھا اس طرح پولیس ٹریننگ کالج میں فرائض انجام دینے والے 2ڈی ایس پیز حسن علی اورغلام محمد پر جنوری 2009 پر سریاب روڈ پرحملہ کیا گیا۔ جس میں حسن علی اپنے تینوں محافظوں سمیت شہید ہوگے ۔ گزشتہ سال پولیس ٹریننگ کالج میں زیرتربیت بلوچستان کانسٹیبکری کے دو سب انسپکٹرز حفیظ الا مین اور فضل محمد کوسیٹلائٹ ٹاون میں نشانہ بیانا گیا۔ ہربڑے سانحہ کے بعد ہمیشہ قوم متحد اورپرعزم نظر آئی ہے۔ چاہے وہ پشاور APSسکول پرحملہ ہو یاپھر سول ہسپتال پشاور میں وکلابرادری کو نشانہ بنایا گیاہو۔مگرسریاب پولیس ٹریننگ سینٹر پرعوام کے مخافظوں کو جس طرح سے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھادیاگیا۔ پوری قو م نہ صرف سوگوار ہے بلکہ سوال اٹھارہی ہے ۔ کہ آخر یہ دہشتگردی کے ناسور سے ہماری جان کب چھوٹے گی اور ذمہ دار کون ہے ۔ بلوچستان کے وزیر اعلی نواب ثناء اللہ زہری نے فرمایاہے کوئٹہ میں حملے کی انٹیلی جنس اطلاع موجود تھی جس کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی ۔ ہائی سیکیورٹی الرٹ یہ تھی کہ ترجمان بلوچستان انواز الحق کاکڑ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹریو میں اعتراف کیا ہے کہ ٹریننگ سنٹر کی سیکیورٹی ناقص تھی۔
آئی جی ایف سی نے بارڈپاردہشتگردوں کے رابطوں کابتاکر اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور پھرـ"را " اور این ڈی ایس کی مشترکہ کاروائی کے بعد معاملہ دشمنوں پرڈال دیا ۔ مگر یہ سانحہ کوئٹہ انتظامیہ کی غفلت ، ناقص سیکیورٹی سے پیش آیاہے۔ کب تک ہم جنازوں میں شرکت کر کے مورال کوبلند کرنے کے دعوے کرتے رہیں گے ہمیں اب sampolic gesture سے پریکٹیکل کیا آنا ہو گا۔ ٹریننگ سنٹر حملے میں جو مجرمانہ غفلت ہوئی وہ توناقابل تلافی تھی مگر جوبلوچستان حکومت نے شہیدوں کی میتوں کو ایمبولینس کی بجائے ویگنوں میں اہلخانہ کے سپرد کرکے جوسلوک کیاہے وہ شہید وں کے خون کی بے توقیری کے بھی مرتکب ہوئی ہے۔
غفلت اور بے توقیری
Oct 27, 2016