اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد جڑواں شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی جبکہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن کو روک دیا گیا اور شرکاءکو گرفتار کرنے کے لئے لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ پولیس نے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی موجودگی میں کارکنوں کو گرفتار کر کے گاڑیوں میں ڈالا۔ جس پر انہوں نے شدید احتجاج کیا۔ خواتین سمیت 200 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور تحریک انصاف نے کنونشن کے لیے اجازت نامہ حاصل نہیں کیا۔ یہ اجتماع سیکٹر ای الیون کے ایک پنڈال میں ہونا تھا تاہم پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی۔ پولیس نے جب کنونشن میں آنے والے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کیا تو وہاں تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ شاہ محمود قریشی نے حکومت کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کی اور اپنے کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ جب وہ میڈیا سے بات کر رہے تھے تو اس وقت بھی پولیس اور ایف سی اہلکار تحریک انصاف کے کارکنوں کو پکڑ کر وہاں موجود بسوں کے ذریعے منتقل کر رہے تھے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وہ حکومت کو جواب دینا ہو گا کہ کس جواز کے تحت پرامن اجتماع کو اس طرح کی کارروائی میں نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ جماعت کے دیگر رہنماوں کے ساتھ پولیس کے آئی جی اسلام کے دفتر جا رہے ہیں اور وہاں نہ صرف اس اقدام پر احتجاج کریں گے بلکہ اپنے کارکنوں کی فوری کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔ اس موقع پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ آج کی کارروائی ملک میں بادشاہت کی ایک مثال ہے۔ راولپنڈی میں بھی نقص امن کے پیش نظر 144 نافذ کر دی گئی۔ جس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ دفعہ 144 کا نفاذ 28 اور 29 اکتوبر تک کیا گیا ہے۔ کسی جنازے کے علاوہ 5 یا اس سے زائد افراد جمع نہیں ہو سکیں گے۔ شہر میں اشتعال انگیز تقاریر پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ لا¶ڈ سپیکر، اسلحہ کی نمائش پر بھی مکمل پابندی ہو گی۔ پولیس نے کنونشن ہال بند کرا دیا اور مینجر کو پکڑ کر لے گئی۔ اسلام آباد انتظامیہ نے خواتین پر بھی تشدد کیا۔ بدتمیزی کی گئی۔ شاہ محمود نے کہا تشدد کا حکم وزیر داخلہ نے دیا۔ تحریک انصاف کے یوتھ ونگ کے صدر، نائب صدر خواتین سمیت 30 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر کے تھانہ گولڑہ منتقل کر دیا۔ لاٹھی چارج سے درجنوں کارکن زخمی ہو گئے، پولیس نے ورکرز کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔ شادی ہال کو سیل کر کے مینجر کو گرفتار کر لیا۔ نامہ نگاروں کے مطابق دھرنے میں شرکت سے روکنے کے لئے مختلف شہروں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ وزیرآباد میں بھی چھاپے مارے گئے۔
کارکنان پر تشدد؛ عمران خان کا کل ملک گیر احتجاج کا اعلان
چیئرمین تحریک انصاف نے اسلام آباد گرفتاریوں کیخلاف آج پورے ملک میں احتجاج کی کال دیدی۔ عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نے شروعات کی ہے نقصان انہی کا ہو گا حکومت کے اس اقدام کا بڑا ردعمل آئیگا۔ تحریک انصاف کے کارکن آج کے واقعے پر مشتعل ہیں۔ شریف برادران کو جمہوریت کی اے بی سی کا پتہ نہیں‘ آمر کی گود میں پلنے والوں کو جمہوریت کا کیا پتہ۔ ہم ہمیشہ پرامن رہے ہیں، 126دن کا دھرنا رہا ایک گملا تک نہیں ٹوٹا۔ گزشتہ روز کے واقعے پر پورے پاکستان میں احتجاج ہو گا۔ جیل میں بھی ڈال دیا گیا تو بھی احتجاج کرونگا، کس قانون کے تحت کارکنوں کو پکڑا گیا اس کا ردعمل آئیگا۔ اسے یہ برداشت نہیں کر سکیں گے جیل سے نکلوں گا پھر احتجاج کرونگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آج اجازت دی، انہوں نے کیوں خواتین کو مارا۔ انہوں نے ایسا ہی رویہ رکھا تو پھر اسلام آباد میں کچھ اور ہی ماحول ہو گا۔ کرپشن ان پر بوجھ بن چکی ہے۔ ان کا چہرہ دیکھ لیں یہ گھبرائے ہوئے ہیں۔ پی ٹی وی پر حملہ انہوں نے خود کرایا۔ ان کی تاریخ فاشزم ہے۔ ان کو جمہوری آداب سمجھ ہی نہیں آتے۔ قبل ازیں تحریک انصاف کے وکلاءنے شہر بند کرنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ عمران خان نے کہا ہے کہ دھرنا ہر قیمت پر ہو گا، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں دھرنے سے نہیں روک سکتی، ہمارے کارکنوں کی پکڑدھکڑ بند نہ ہوئی تو انتشار پھیلے گا، ہمارے لوگ رکنے والے نہیں ہیں اور انہیں کوئی روک نہیں سکے گا، نوازشریف ضمیروں کے سوداگر ہیں۔ اتنے لوگ لاو¿ں گا یہ بلوں میں گھس جائیں گے۔ میڈیا سے گفتگو میں عمران خان نے کہا وزیراعظم اربوں روپے کی کرپشن میں پکڑے گئے ہیں۔ نوازشریف کے پاس احتساب یا استعفی دینے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ حکومت ہمارے پرامن جمہوری حق کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ دھرنے کو روکنے کے لیے حکومت نے غیر آئینی اور غیر قانونی حربے استعمال کرنے شروع کردیئے ہیں اور اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو معاملہ انتشار کی جانب جاسکتا ہے۔ نوازشریف ضمیروں کے سوداگر ہیں، ان کی بادشاہت کی مذمت کرتا ہوں، وہ فوجی آمر کی پیداوار اور انہوں نے ہمیشہ امیرالمومنین بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوم ڈوب رہی ہے، اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں، ملک کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، لوگ بھوکے مررہے ہیں اور سٹیٹس کو کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد بند ہوجائے گا تو ان کے بچے سکول کیسے جائیں گے۔ ان لوگوں کا ضمیر اور اخلاقیات مرچکی ہے اور میں سٹیٹس کو کے لوگوں کو تکلیف نہیں دوں گا۔ کل جو شہبازشریف نے ڈرامے سے بھرپور تقریرکی انہیں تو ایوارڈ ملنا چاہیے۔ شہبازشریف نے 6 ارب روپے کے قرضے لے رکھے تھے انہیں تو 2013 ءمیں الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہیں ملنی چاہئے تھی، شہبازشریف کو ان کی کل کی تقریر پربھارتی فلموں میں کام کرنا چاہئے۔ ان کے ڈرامے ختم ہو گئے ہیں۔ 2 نومبر کے دھرنے کے لئے میرا عزم اور ولولہ ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ پنجاب پولیس کے ہاتھ ماڈل ٹاو¿ن کے افراد کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، پنجاب اور اسلام آباد پولیس سے کہتا ہوں کہ شریف خاندان کے گلوبٹ بننے کے بجائے آئین اور قانون کے تحت قوم کی خدمت کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر غور کررہے ہیں کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ احکامات دائرہ اختیار سے باہر نکل کر جاری کیے گئے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ہائیکورٹ کے حکم کو چیلنج کریں گے۔ ہمیں سنے بغیر حکم جاری کیا گیا۔ اس موقع پر معروف قانون دان بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام عدالتوں پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے، آئین کے آرٹیکل 10کے تحت کسی فریق کو سنے بغیر کوئی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ بابر اعوان نے کہا کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم چیلنج کردیں گے۔ عمران خان نے کہا اتنا بڑا عوام کا سمندر لاؤں گا کہ یہ لوگ بلوں میں گھس جائیں گے۔ یہ لوگ نہ استعفے دیتے ہیں نہ حساب دیتے ہیں۔ دو نومبر کے احتجاج کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی جو مرضی ہو جائے 2 نومبر کو احتجاج ہو گا۔ انصاف کے ادارے ہمیں روکیں گے تو ملک انتشار کی طرف جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دو بھائیوں نے ڈرامے کئے ہیں۔ میں ان کا موٹو گینگ اور سٹیٹس کو کے لوگوں کو رلاؤنگا‘ تکلیف پہنچاؤنگا۔ نواز شریف ملٹری ڈکٹیٹر کی پیداوار ہیں‘ کنٹینرز پہنچ گئے ہیں‘ پولیس گھروں تک پہنچ گئی‘ ایسا کس جمہوریت میں ہوتا ہے؟ حکومت غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کر رہی ہے۔ 2نومبر کو عوام کا سمندر لے کر آﺅنگا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں اتنا بڑا عوام کا سمندر لے کر آﺅنگا کہ یہ لوگ بلوں میں گھس جائیں گے۔