امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان کا ابتدائی جائزہ

Oct 27, 2017

کرنل (ر) اکرام اللہ

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے پاکستان آنے سے پہلے افغانستان کا دورہ کیا۔ اس سے خطہ میں ان کی ترجیحات واضح ہو جاتی ہیں۔ سیکورٹی وجوہات کے باعث افغانستان کے صدر اور چیف ایگزیکٹو سے ملاقاتوں کے لئے کابل شہر میں داخل ہونے سے پرہیز کرتے ہوئے بگرام ائیربیس سے باہر نہیں نکلے اور بگرام ائیربیس پر ہی افغان حکمرانوں کو ملاقات کیلئے طلب کیا گیا اور صدر ٹرمپ کی نئی افغان سٹرٹیجی کی وضاحت کی گئی جس کا احوال قارئین میڈیا پر پڑھ اور سن چکے ہیں۔ بگرام ائیربیس سے پرواز کرکے اسلام آباد ہوائی اڈا کو بھی محفوظ قرار نہ دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا خصوصی طیارہ راولپنڈی کے چکلالہ ائیربیس پر لینڈ کیا۔ جہاں سے بغیر کسی گرینڈ پروٹوکول RECEPTION کی رسومات کے وہ خاموشی کے ساتھ پہلے امریکن سفارت خانے اور وہاں سے امریکن سفیر کے ساتھ وزیراعظم ہائوس تشریف لے گئے۔ جہاں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ دیگر وزراء اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے باضابطہ ملاقات اور مذاکرات عمل میں آئے۔ اس کے بارے میں امریکی سفارت خانے نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے جو اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ ریکس ٹیلرسن کا دورہ پاکستان پی ایم ہائوس کی میٹنگ تک محدود تھا۔ جو دو ڈھائی گھنٹے میں ختم ہو گئی۔ جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ دورہ بھارت کے لئے دہلی روانہ ہو گئے جہاں وہ دو دن قیام کریں گے۔ جبکہ پاکستان میں ان کا ٹوٹل قیام تقریباً 4 گھنٹوں کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ افغانستان کے صدر بھی عین اس وقت پر جب کہ ریکس ٹلرسن نیو دہلی میں ہیں وہاں پہنچ گئے ہیں اس دوران پورے خطے بالخصوص پاکستان اور کشمیر کے بارے میں جو کھچڑی نئی دہلی میں بھارت کے تڑکا سے تیار ہوتی ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

میرے ذاتی ابتدائی جائزہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کے پاک امریکن تعلقات کی تاریخ میں اس مختصراً ترین دورہ کو حوصلہ افزاء نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ سچ پوچھیں تو صورتحال اس کے برعکس ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان میں نئی پالیسی کے اعلان سے لیکر لمحہ موجود تک امریکی بیانات خطہ میں طاقت کے توازن میں واضح شفٹ کی نشاندہی کے باعث پاکستان کی قومی سلامتی اور SOVEREIGNTY کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال جانی و مالی قربانیوں کا ذکر کرنے کے باوجود اسلام آباد PM ہائوس میں میٹنگ کے دوران ’’ڈومور‘‘ کی یہ کہتے ہوئے ڈیمانڈ کی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خاتمہ کے لئے کوششیں تیز کرے۔ کوئی بتلائے کہ ہم امریکہ کو کیسے سمجھائیں کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ سمیت باقی تمام اتحادیوں سے زیادہ قربانیاں دے چکا ہے۔ اب دوسرے اتحادیوں کی باری ہے کہ وہ ڈومور کرکے دکھائیں۔ صرف یہ ہی نہیں طاقت کے غرور میں ریکس ٹلرسن نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ پارٹنر شپ کیلئے افغانستان میں نئی پالیسی کی کامیابی کے لئے بھارتی کردار تسلیم کرنا ہو گا۔ میں نے روزنامہ نوائے وقت (25 اکتوبر) وزیر دفاع جناب خرم دستگیر کے حوالہ سے پڑھا ہے کہ انہوں نے بتا دیا ہے کہ سخت زبان سے معاملات حل نہیں ہو سکتے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ وزیر دفاع نے یہ بات PM ہائوس میٹنگ میں کی یا کہیں اور یہ بات وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو کہنی چاہئے تھی کہ پاکستان پر برابری کی سطح پر سنجیدگی اور وقار کے ساتھ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے پر امن افغانستان کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ امریکہ کے ساتھ 70 برس سے تعلقات ہیں جنہیں بہتر اور دیرپا بنانے کیلئے ہر وقت تیار ہیں لیکن خطہ میں بھارتی بالادستی قائم کرنے سے طاقت کے توازن کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ اسلام آباد کی خاص بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے مل کر یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان امریکہ دو طرفہ تعلقات و علاقائی صورتحال اور افغان مسئلہ پر ملک کی سول اور عسکری قیادت یکساں موقف کی حامل ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی کی نہ صرف یہ خواہش بلکہ دعا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ لیکن ایسے مقاصد صر ف WISHFUL THINKING سے تکمیل نہیں پاتے بلکہ اس کیلئے خلوص نیت سے متواتر عملی مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے بعد اور افغان صدر کے کابل واپسی کے بعد افغان پاکستان سرحد کے حالات میں کیا کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس راہ میں ابھی بہت مشکلات حائل ہیں۔ قارئین نے نوٹ کیا ہو گا کہ گو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم ہائوس میں امریکی وزیر خارجہ کی میٹنگ میں شریک تھے اور یقیناً انہوں نے امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے بارے میں پاکستان کا نقطہ نظر بھرپور انداز میں اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا ہو گا۔ کیونکہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور سپہ سالار کو ایسے موقع پر قومی سلامتی کے بارے میں اپنا فرض منصبی ادا کرنا ناگزیر ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں اب تک جو نا قابل فراموش کردار ادا کیا ہے اس پر چین‘ روس‘ ترکی‘سعودی عرب سمیت بیرونی دنیا کی قیادتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ دنیا کی دوسری شہادتوں پر بھی جن میں NATO اور یورپین ممالک برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ پاکستان کی قربانیوں اور کردار کا اعتراف کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ امریکہ چونکہ اپنے مفادات کے تحت اس خطہ میں چین کے سپر پاور بننے کے خدشات کی بنیاد پر بھارت کو اس کے مقابل لانا چاہتا ہے اس لئے وہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کردار پر بھارت کے پروپیگنڈا پر تکیہ کر کے اسی کے لہجے میں ہم سے ڈو مور کے تقاضے کرتا رہتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ کے بعد اگلا رائونڈ امریکی وزیر دفاع کے دورہ پر ہو گا۔ جو دسمبر کے آخر یا جنوری 2018ء کے شروع میں متوقع ہے۔ پاکستان کے داخلی سیاسی اور قومی سلامتی کے حالات خصوصی طور پر بھارت کی طرف سے مشرقی سرحد پر اور افغان بارڈر پر مختلف محاذوں پر تیزی سے غیر تسلی بخش صورت اختیار کر رہے ہیں۔ اس لئے دو ماہ بعد کے مستقبل کے بارے میں حتمی طور پر کوئی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی۔ آنے والے دنوں میں موجودہ برسر اقتدار حکمران پارٹی کی مشکلات پر قابو پانے کیلئے گڈ گورننس اور قانون و آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے پوری قوم کو دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہئے۔

مزیدخبریں