امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے کہا ہے کہ ہم بھارت کو خطے کا لیڈر بنائیں گے۔ ہمارا ایک سوال ہے کہ امریکہ کو لیڈر ملک کس نے بنایا تھا؟ ملک لیڈر بنتے ہیں۔ بنائے نہیں جاتے۔ لیڈر کسی نہ کسی ملک سے وابستہ ہوتے ہیں یا پھر دنیا میں ایک مثال ہے کہ ایک بڑے لیڈر قائداعظم نے ملک بنایا۔ وہ پاکستان بننے سے پہلے ہی لیڈر تھے اور رہتی دنیا تک لیڈر رہیں گے۔ قائداعظم کے لیڈر محمدالرسول اللہؐ تھے۔
چین کو لیڈر ملک امریکہ نے نہیں بنایا۔ چین امریکہ کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اور ان کی لیڈر شپ نے بنایا۔ چیئرمین مائو چینی لیڈر ہیں۔ چو این لائی چین کے پہلے وزیراعظم تھے۔ علامہ اقبال نے پہلے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
امریکہ عالمی منظر نامے میں صرف ایک عسکری قوت ہے۔ اسی حوالے سے وہ دنیا والوں کا بھی لیڈر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے احسانات بھی دنیا والوں پر ہیں مگر دوسروں کو اپنا زیراثر بنانے کی کوشش نے دوسروں کو اپنا دوست نہیں بنایا۔ اپنا غلام بنانے کی کوشش کی ہے۔
تیسری دنیا کے اکثر ممالک امریکہ سے ڈرتے ہیں۔ امریکہ سے محبت نہیں کرتے۔ جبکہ ایک خوف محبت کا ہوتا ہے۔ شاید اس کا ابھی تک امریکہ کو تجربہ نہیں ہے۔ وہ ایسا ملک بن سکتا تھا کہ ساری دنیا اس کو لیڈر ملک سمجھتی مگر بہت کچھ اس نے طاقت کے زور پر حاصل کرنا چاہا۔ کچھ چیزیں طاقت اور دولت کے حوالے سے حاصل نہیں کی جا سکتیں۔
بھارت کو امریکہ لیڈر بنانا چاہتا ہے مگر وہ امریکہ کے لیے تو لیڈر نہیں ہو گا تو بھارت خطے میں اپنی ’’تھانیداری‘‘ قائم کرے گا۔ خطے میں کمزور ملک بھی ہیں مگر چین اور پاکستان بھارت کو کیسے لیڈر ملک مانیں گے۔ پاکستان کی بات میں ابھی کروں گا مگر چین تو ایک بار بھارت کو ناکوں چنے چبوا چکا ہے اور چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ملک ہے۔ اس نے تو ابھی تک امریکہ کو لیڈر ملک نہیں مانا۔ چین دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ اس کے لیے واحد سپر پاور بننے کے امکانات بھی ہیں۔
پاکستان کی جغرافیائی صورتحال ایسی ہے کہ وہ چین کے لیے بہت اہم ملک ہے۔ اگر امریکہ بھارت کو خطے کا لیڈر بنائے گا تو خطے میں کئی ملک خود بخود لیڈر ملک بن جائیں گے۔
یہ بات میں کسی تعصب کی وجہ سے نہیں کہہ رہا کہ بھارت دنیا میں کسی ملک سے ڈرتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس کے بعد وہ چین سے خوف زدہ ہے۔ چین بھی بھارت پر کوئی اعتماد کرنے کے حق میں نہیں ہے اور پاکستان سے چین کی وابستگیاں کئی قسم کی ہیں مگر بھارت دشمنی ایک سانجھی بات ہے۔ ایک لڑائی بھارت کے ساتھ پاکستان کی ہو چکی ہے اور ایک لڑائی چین کے ساتھ بھی ہو چکی ہے۔ جن کے لیے خیال ہے کہ بھارت کو ہزیمت کا شکار ہونا پڑا ہے۔
امریکہ کو اس کا خیال نہیں کہ جب سوویت یونین (روس) کے ساتھ اس کا مقابلہ تھا تو پاکستان امریکہ کے ساتھ تھا اور بھارت روس کے ساتھ تھا۔ اب پاکستان کسی کے ساتھ اس طرح نہیں جس طرح اب بھارت امریکہ کے ساتھ ہیں۔
پاکستان چین کے ساتھ تو کھلم کھلا ہے۔ روس کے ساتھ بھی اس کے روابط استوار ہو رہے ہیں۔ خطے میں پاکستان ایسا ملک ہے جس کا کسی ملک کے ساتھ جھگڑا نہیں ہے۔ بھارت کے علاوہ خطے میں کوئی ملک خطے کے کسی ملک کے ساتھ کسی جھگڑے میں مبتلا نہیں ہے۔ بھارت خطے کے کئی ملکوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ اسے خود بھی خطے کا تھانیدار بننے کا بڑا شوق ہے۔ اور تھانیدار کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ میرا خیال ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ ہم بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا چاہتے ہیں۔ ہم کبھی بھی بھارت کو دوست ملک یا دشمن ملک نہیں کہتے۔ اسے صرف ہمسایہ ملک کہتے ہیں۔ لوگ ہمیشہ اچھے ہمسائے کے لیے دعا کرتے ہیں۔ پاکستان لیڈر ملک بن سکتا تھا مگر اس کے حکمران لیڈر نہ تھے۔