اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں بیرون ملک جعل سازی سے قیدی کی پاکستان منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت میں ملزم قمرعباس کی برطانیہ سے پاکستان منتقلی سے متعلق اصل دستاویزات طلب کر لی ہیں۔ قمرعباس گوندل اور سیکشن آفیسر علی محمد ملک کیخلاف حکومت نے اپیلیں دائر کی تھی۔ وکیل نے عدالت کو بتاےا کہ قمر عباس کو 2011 میں برطانوی جیل سے پاکستان منتقل کیا گیا، قمر عباس کی منتقلی وزارت داخلہ کے سیکشن آفیسر کی جانب سے داخل کرائے گئے بوگس کاغذات پر کی گئی۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تو اس معاملے میں سیکشن آفیسر کے کردار سے متعلق ثبوت دینا ہے، کیا برطانوی حکومت کو پیش کردہ خط ریکارڈ پر موجود ہے؟ وکیل نے بتاےا کہ اصل دستاویزات نہیں ہیں صرف فوٹو کاپیاں ہیں۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ فوٹو سکین کو ہم ثبوت کے طور پر نہیں مان سکتے، جعل سازی کے ایسے واقعات سے ہماری دنیا میں کیا عزت رہ گئی، اب کوئی ملک بھی ہمارے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہیں کرنا چاہتا، صرف اس واقعہ کی وجہ سے ہزاروں قیدی بیرون ملک جیلوں میں سڑ رہے ہے، پھر کہتے ہیں دنیا ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتی، ہم کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیںکیوں کہ یہ پاکستان کی عزت کا سوال ہے، اصل دستاویزات پیش کریں وگرنہ ہائیکورٹ کی سزا کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ قمر عباس گوندل کو برطانیہ میں 11 سال کی سزاسنائی گئی تھی،کچھ عرصے بعد ملزم کو سزا مکمل کرنے کیلئے پاکستان بھیجا گیا، قمر عباس گوندل ملک واپس آکرکچھ روز بعد جیل سے رہا ہو گئے، قمرعباس گوندل کی رہائی کیلئے سیکشن آفیسر علی محمد ملک نے جعلی مراسلہ تیارکیا تھا، قمرعباس گوندل 2019 کے بجائے 2011 میں رہا ہو گیا۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ایک شخص کے باعث دوسرے ملکوں سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے معطل کیے،کیا یہ اتنا بااثر شخص ہے کہ ہرکوئی اسے تحفظ دے رہا ہے، قمرعباس گوندل کی وجہ سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی، تاحال کوئی ثبوت نہیں دیا گیا کہ اس کی بریت کیسے ہوئی؟ کسی ملک جاتا ہوں، سفیر قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بحال کرنے کا کہتے ہیں، قیدیوں کے تبادلے معمول کی مشق ہے، انسانی بنیادوں پرکی جاتی ہے، ایک شخص کے باعث بیرون ملک جیلوں میں پاکستانیوں کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، ایسے اقدام کیے جاتے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوایک موقع دیا جا رہا ہے، مقدمے میں ملزموں کی طرف سے دستاویزکی محض نقول پیش کی گئیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل بتائیں کیا واقعی ہائیکورٹ میں نقول پیش کی گئیں، نقول پیش کرنے کی بات درست ہے تو یہ بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔
جسٹس آصف سعید