ایچ ای سی کے بجٹ پرکٹ ملکی تعلیمی نظام خطرے میں!!!

پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد قومی بہبود اور انقلابی فلاحی ریاست کے حوالے سے جہاں سارے کے سارے دعوے اور وعدے محض ریت کی دیوار ثابت ہوئے وہاں شعبہ تعلیم میں بھی نئی حکومت کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔آکسفورڈ کے پڑھے لکھے چیئرمین عمران خان اور انکی اعلی تعلیم یافتہ قیادت سے وابستہ تعلیمی انقلاب کی عوامی توقعات کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا،قوی امید تھی کہ قومی اطفال مکتب کی قسمت اور مقدر چمک جائے گااور بائیس سال سے محنت کرنیوالی سیاسی جماعت اپنے منفرد تعلیمی ایجنڈا کی بدولت نرسری سے ہائر ایجوکیشن تک تمام قسم کے طلباء کوتعلیمی حقوق تک بہم رسائی فراہم کر کے تعلیمی انقلاب لانے میں کامیاب ہو جائیگی لیکن محاورہ ’’الٹے بانس بریلی کے ‘‘مطابق نے پاکستا ن کی اس حکومت نے ریکارڈ توڑتے ہوئے گزشتہ حکومتوں سے بھی زیادہ تعلیمی بجٹ پرکٹ لگا دیا جو موجودہ بجٹ کا 2.4% ہے جبکہ ن لیگ کے دور میں یہ 2.65% تھا جو کہ شعبہ تعلیم کیلئے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔سوچا تو یہ گیا تھا کہ 26ملین یعنی 2کروڑ ساٹھ لاکھ سکول نہ جانے والے پاکستانی بچوں کو سکول میں داخل کر کے انکی تعلیمی محرومی دور کر دی جائیگی اور یہ گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں GDPکا خطیر حصہ شعبہ تعلیم کیلئے وقف کر دیا جائیگا لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا اور پاکستان کی ایجوکیشن پالیسی کے ماٹو Access and Quality کو پس پشت ڈالتے ہوئے تعلیمی سرمایہ کاری میں مایوس کن کمی کر دی گئی،اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ پاکستانی مستقبل کے معماروں کو تعلیم کی عالمگیری صف میں شامل کرنے کیلئے تیار کرنیوالے ادارہ محکمہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ٹارگٹ کرکے اسکے مصارف کو نظر انداز کر تے ہوئے مالی معاونت سے مطلوبہ ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ غیر ترقیاتی بجٹ میں 40% اور ترقیاتی بجٹ میں% 20 کمی کر دی گئی ہے۔اور اس کا اثر تمام جامعیات پر براہ راست پڑ رہا ہے۔اس سال کے بجٹ پیش ہونے کے بعد HECکی جانب سے جامعات کو لکھے جانے والے مراسلہ میں حکم نامہ جاری کیا گیا کہ وہ اپنے غیر ترقیاتی بجٹ میں10% سے 14%فیصد تک کم کر کے اپنے مالی معاملات کو کم بجٹ میں پورا کرنے کی کوشش کریںاور غیر تدریسی عملہ کی بھرتی اور نئے سازو سامان کی خرید و فروخت روک دیںلیکن اہم، حیران وپریشان کن بات یہ کہ تمام جامعیات کو یہ بھی ایڈوائس کی گئی کہ وہ صاحب ثروت افراد سے رابطہ کر کے فنڈ یا ڈونیشن حاصل کر کے اپنے معاشی امور کو چلائیں جس سے سرکاری نیورسٹیوں میں مستحق طلباء کے سکالرشپ بند ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے،اور اسکے ساتھ ساتھ فیسوں میں اضافے کا خدشہ اور غریب افراد کے بجٹ پر زیادہ اثر پڑیگااور حکومت نے HEC کو چلانے کیلئے ماہِ اگست میں فوری سپلیمنٹری گرانٹ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔جس کی بنا پر یونیورسٹیوں کی تعلیمی بقا ء مشکل نظر آرہی ہے۔HECہر سال 10% اضافہ کرتا تھا جبکہ اس سال20%فیصد تک کٹ لگا کرمجموعی طور پر جامعات کو 30فیصد بجٹ سے محروم کر دیا گیاجو کہ ایک خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ قابل ذکر بات یہ کہ پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے HECکا قومی سطح تک نیٹ ورک پھیلا ہے اور اسکے پیچھے نمبرز کی دوڑشامل تھی۔زیادہ سے زیادہ PHDسکالرز کی تیاری ،نئے پروگراموں کا آغاز ،نئی یونیورسٹیوں اور نئے کیمپسز کا وسیع تر پھیلائو کی بنا پر کوالٹی ایجوکیشن متاثر ہوئی اور حکومت کو مالی معاونت میں توازن رکھنا مشکل ہو گیا، HEC 2016 سے2018 تک جامعات کو ایڈہاک فنڈکی ایک پائی تک نہیں ملی جبکہ یوٹیلٹی پرائز بڑھ گئیں،نہ ہی سیلری اور نہ ہی پینشن میں اضافے کا کچھ مل سکا۔اور 2019-20 کے سالانہ بجٹ میں HEC کا بجٹ کم کر کے اس کا خطیر حصہ وزارت سائنس اور ٹیکنا لوجی کو جاری کرنے کیساتھ 10بلین کی گرانٹ نالج آف اکانومی کے نوزائیدہ شعبہ کو جاری کی گئی۔بجائے اسکے کہ تمام قسم کی خطیر رقم کو جامعیات کو دیا جاتا تو یہ تو ایچ ای سی کو اتنے معاشی دبائو کا سا منا نہ کرنا پڑتا۔اقوام متحدہ کے طے کردہ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز(MDG) کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ سب اپنے بجٹ کے GDPکا 5% تعلیم کیلئے مختص کریں اور اس وقت ہماری حکومت بین الاقوامی معیار کیمطابق 1% سے بھی کم خرچ کر رہی ہے جو کہ پاکستان کے روشن مسقبل کے ساتھ ایک سازش ہے انٹر نیشنل نارمز کے تحت پانچ فیصد جی ڈی پی میں سے چار فیصد تعلیم کیلئے اورایک فیصد ہایئر ایجوکیشن کیلئے رکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میںHEC کیلئے 0.2% رکھا جاتا ہے جو کہ بہت بڑی زیادتی ہے۔اس وقت HEC کو اپنے تعلیمی ٹارگٹ کے حصول کیلئے سالانہ103.5بلین روپوں کی ضرورت ہے جبکہ اسکے مقابلہ میں اس سال59 بلین روپے رکھے گئے۔ اس سال بے نظیر انکم سپورٹ کے احساس پروگرام کے تحت 5 بلین روپے ملک بھر کے انڈر گریجوایٹ طلبہ کیلئے میرٹ بیسیڈ اور نیڈ بیسڈ سکالرشپ جاری کرنے کیلئے رکھے گئے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہے لیکن پھر بھی تعلیم مصارف میں توازن رکھنا نا ممکن ہے۔ یونیورسٹیوں نے تو ملک کی معیشت میں حصہ ڈالنا ہو تا ہے۔ ایچ ای سی کے بجٹ کے موجودہ بحران کی ذمہ داری صرف پی ٹی آئی حکومت کو دینا درست نہ ہو گا اس میں سابقہ حکومتیںبھی اتنی ذمہ دار ہیں جتنی موجودہ کیونکہ ہم اپنی یونیورٹیوں کو منافع بخش ماڈل ادارے بنانے میں نا کام رہے اور پی ایچ ڈی ریسرچرزپراتنی سرمایہ کاری نہیں کی کہ انکی سرگرم شمولیت سے ہم اپنی اکانومی کو نئی جہتیں دے سکتے۔ اس ضمن میں امریکہ کی مثال دی جائے تو پتہ چلتا ہے2003 سے2016 تک امریکی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی ریسرچز کی بدولت امریکی GDP میں 592 بلین ڈالر شامل ہوئے جو کہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کیلئے زندہ مثال ہے۔ یہاں اگر ہم امریکی ماڈل کی کاپی نہیں کر سکتے تو کم از کم ہمیں تعلیم بجٹ پر کٹ لگا کر قوم کے مسقبل کوستاروں کی حوصلہ شکنی نہیں بھی کرنی چاہیئے۔

ای پیپر دی نیشن