کشمیر کی صورتحال پر امریکی تشویش اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا عالمی برادری سے نوٹس لینے کا تقاضا
امریکہ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال معمول پر لانے کیلئے روڈمیپ دے‘ سیاسی مذاکرات شرع کرکے تمام نظربند رہا کئے جائیں اور اقتصادی سرگرمیاں بحال کی جائیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز اپنے بیان میں باور کرایا کہ کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش ہے‘ جہاں پابندیوں کے باعث 80 لاکھ افراد کی زندگیاں شدید متاثر ہیں۔ ہم بھارت کی جانب سے آئندہ کئے جانیوالے اقدامات کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ بیان میں پاکستان پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ جنگجوئوں کیخلاف پائیدار کارروائی کرے۔ لشکر طیبہ‘ جیش محمد اور حزب المجاہدین جیسی دہشت گرد تنظیمیں مسئلہ ہیں۔ عمران خان کا کنٹرول لائن پار نہ کرنے سے متعلق بیان سراہتے ہیں اور کرتارپور راہداری نومبر میں کھلنے کے منتظر ہیں۔ مزیدبراں امریکی ارکان کانگرس نے بھارتی سفیر کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا ہے کہ کشمیر سے متعلق بھارتی معلومات شواہد سے مختلف ہیں۔ ہمیں بتایا جائے کہ وادی میں مواصلات‘ انٹرنیٹ بحال کردیا گیا ہے یا نہیں اور یہ کہ کرفیو کب ختم ہوگا۔ غیرملکی صحافیوں اور ہمیں وادی کے دورے کی اجازت کب ملے گی۔ اس حوالے سے قائم مقام امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس جی ویلز نے باور کرایا کہ امریکہ کو کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش ہے جہاں پابندیوں کے باعث 80 لاکھ لوگوں کی زندگیاں شدید متاثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں مذاکرات کی فضا قائم کرنے کی ذمہ داری دونوں ممالک پاکستان اور بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جمہوریت کی طرح بھارت کی معیشت کو بھی بدحالی کا شکار کررہے ہیں۔ بھارت کی معیشت نااہلی اور برے طریقے سے چلائی جارہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کریک ڈائون نے کشمیریوں کو خاموش کر دیا ہے‘ فضا سوگوار ہے‘ اس لئے عالمی برادری کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لینے کا وقت آگیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی گزشتہ روز یہی باور کرایا ہے کہ کشمیری انصاف کے منتظر ہیں‘ دنیا کو انکی خاموشی پر دھیان دینا ہوگا۔
بھارت کی مودی سرکار نے گزشتہ 84 روز سے مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کو کرفیو کے ذریعے محصور کرکے جس پاگل پن کے ساتھ انہیں موت کی جانب دھکیلنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے‘ وہ نہ صرف انسانی اقدار کو ملیامیٹ کرنے کے مترادف ہے بلکہ کشمیریوں کی مسلمہ جدوجہد آزادی کو ریاستی جبر کے تحت کچلنے کی بھی کوشش ہے چنانچہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے اسی تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کا نوٹس لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل‘ سلامتی کونسل‘ یورپی یونین‘ امریکی‘ برطانوی پارلیمان‘ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ عالمی قیادتوں بشمول صدر امریکہ‘ صدر جمہوریہ چین‘ صدر ترکی‘ برطانوی وزیراعظم‘ ملائشین وزیراعظم اور دوسری عالمی شخصیات کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت سے وہاں حالات معمول پر لانے کا تقاضا ہوچکا ہے جبکہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی عالمی قیادتوں نے کشمیر ایشو کو فوکس کرکے اس ایشو پر پاکستان اور بھارت میں پیدا ہونیوالی کشیدگی اور اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا اور چین‘ ترکی‘ ملائشیا کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کا تقاضا کیا گیا۔ وزراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے یہی باور کرایا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ بھارت نے کرفیو کے ذریعے کشمیریوں کو محصور کرکے انکی تمام آزادیاں اور حقوق چھین لئے ہیں۔ انہوں نے عالمی قیادتوں کو یہ بھی باور کرایا کہ بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کرکے اور کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا کر درحقیقت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرات پیدا کئے ہیں اس لئے بھارتی عزائم کے آگے بند باندھنا عالمی قیادتوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر انہوں نے یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو بھارت کے ہاتھوں دنیا کی تباہی کی نوبت آسکتی ہے۔
ہمارے لئے زیادہ تشویشناک یہ صورتحال ہے کہ عالمی قیادتوں کو بھارت کے پیدا کردہ حالات کی سنگینی کا ادراک ہونے کے باوجود انکی جانب سے بھارتی جنونی ہاتھ روکنے کے معاملہ میں سوائے زبانی جمع خرچ اور سوائے تشویش کے رسمی اظہار کے‘ اب تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ نتیجتاً جنونی مودی سرکار کے حوصلے مزید بلند ہورہے ہیں اور وہ بدمست ہاتھی کی طرح اس خطے میں سب کچھ تہس نہس کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ اس تناظر میں سب سے زیادہ خطرات پاکستان کی سلامتی کو لاحق ہیں جس پر مودی سرکار نئی جارحیت مسلط کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے اور کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر بطور خاص شہری آبادیوں کو نشانہ بنا کر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے نتیجتاً روزانہ بے گناہ شہریوں اور پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں ہورہی ہیں اور بھارتی جنگی جنونیت کے آگے بند نہ باندھے جانے کی صورت میں انسانی اموات میں بتدریج اضافہ ہوسکتا ہے۔ بھارت کی تو یہی کوشش ہے کہ وہ کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا کر اور یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھ کر پاکستان کو اشتعال دلائے جس کے کسی جوابی اقدام کو جواز بنا کر اس پر باقاعدہ جنگ مسلط کر دی جائے۔ پاکستان کو بھارتی جارحانہ کارروائیوں کے جواب میں بہرصورت ملک کی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے اقدامات اٹھانے ہیں جس پر بھارت اسے مجبور کررہا ہے۔ اگر کل کو بھارتی اشتعال انگیزیوں سے دونوں ممالک میں جنگ کی نوبت آگئی تو وہ پہلے جیسی روایتی جنگ ہرگز نہیں ہوگی بلکہ دونوں ممالک کے ایٹمی قوت ہونے کے باعث اسکے ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورت میں صرف پاکستان اور بھارت کی ہی تباہی نہیں ہوگی بلکہ اس خطے کے بھی اور اقوام عالم کے بھی بیشتر ممالک اس جنگ کے مضمرات کی لپیٹ میں آئینگے۔ اس طرح بھارت درحقیقت اپنی جنونیت میں انسانی تباہی کا اہتمام کررہا ہے جس کا اقوام عالم کی جانب سے محض رسمی نوٹس لینا اور خالی خولی تشویش کا اظہار کرنا بھارتی جنونیت کے آگے بند نہیں باندھ پائے گا۔
جب پوری عالمی برادری کو اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ بھارت کی مودی سرکار کشمیر کو ہڑپ کرنے کا اقدام اٹھا کر اور پھر کنٹرول لائن پر پاکستان کے اندر کارروائی کے جھوٹے دعوے کرکے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کرچکی ہے تو مودی سرکار کو اس جنونیت سے باز رکھنے کی عالمی قیادتوں اور متعلقہ عالمی اداروں پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس میں اقوام متحدہ کا کردار زیادہ اہم ہے جس کی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا قابل قبول اور مستقل و پائیدار حل پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں اسی تناظر میں پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کا تقاضا کیا گیا جبکہ کشمیری عوام اس تقاضے کی پاداش میں ہی گزشتہ 70 سال سے زائد عرصہ سے بھارتی مظالم برداشت کررہے ہیں اور اپنی آزادی کے کاز کی خاطر بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہو کر اپنے ہزاروں لاکھوں پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ آج ان پر بھارتی مظالم کی انتہاء ہوچکی ہے جس کا اقوام عالم بھی نوٹس لینے پر مجبور ہوئی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس کی جانب سے بھی گزشتہ روز اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر عوامی امنگوں کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
اصولی طور پر تو یواین سیکرٹری جنرل کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنے ادارے کی منظور کردہ قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کرنی چاہیے اور اس کیلئے بھارت پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کا دبائو ڈلوانا چاہیے۔ اگر اس معاملہ میں عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے منافقانہ طرز عمل برقرار رکھا جاتا ہے اور بھارتی جنونیت رکوانے کا کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا تو پاکستان کو اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا بہرصورت حق حاصل ہوگا جس کیلئے ملک کی مسلح افواج مکمل تیار بھی ہیں اور عسکری قیادتیں بھارت کو باور بھی کراچکی ہیں کہ وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف کسی جارحیت کے ارتکاب کی غلطی نہ کرے ورنہ اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ گزشتہ روز ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا مسکت جواب دیتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ بھارتی آرمی چیف کے ہاتھوں پر بے گناہوں کا خون ہے جبکہ انہوں نے اپنی فوج کو بدمعاش آرمی میں تبدیل کردیا ہے۔
اگر بھارتی وزیراعظم مودی اور بھارتی آرمی چیف بپن راوت اپنے جنونی ذہن اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر جنگ کے شعلے بھڑکا رہے ہیں تو پاکستان بھی اس کا جنگی جنون توڑنے کیلئے مکمل تیار ہے اس لئے علاقائی اور عالمی امن کی خاطر عالمی قیادتوں کو اب عملیت پسندی سے کام لینا ہوگا اور بھارت کا نشہ ہرن کرنے کے اقدامات اٹھانا ہونگے بصورت دیگر پاکستان بھارت کشیدگی دنیا کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے جس پر شاید پھر پچھتانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔