آرمینیا آذر بائیجان جنگ اور کشمیر

آرمینیا اپنے رقبے آبادی اور وسائل میں آذربائیجان کے مقابلے میں جتنا چھوٹا ملک ہے اتنے ہی اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم میں بڑا ہے۔بھارت اور اسرائیل کی طرح۔ اس نے آذربائیجان کے 20 فیصد علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ آذربائیجان نے یہ علاقے واپس لینے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ آرمینیا کے ساتھ براہِ راست رابطے کئے اقوام متحدہ میں اپیلیں کیں اور آرمینیا کے ساتھ تند و تلخ رویہ بھی اختیار کیا۔ کئی بار نوبت محاذ آرائی تک بھی پہنچ گئی مگر آرمینیا مان کر نہ دیا۔ دونوں ملکوں کے مابین جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں ، چھوٹی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان میں طرفین کے تیس ہزار افراد مارے گئے۔ دس لاکھ افراد تین دہائیوں سے بے گھر ہیں۔ اقوام متحدہ نے آرمینیا کو جارجیت سے باز آنے اور مقبوضہ علاقے چھوڑنے کی آٹھ قراردادیں منظور کی ہیں۔ مگر آرمینیا کے رعونت زدہ رویے میں کمی نہیں آئی۔ تنگ آمد بجنگ آمد آذربائیجان نے نگونوکارا باخ سمیت اپنے مقبوضات خالی کرانے کے لیے وہی کیا جو چین نے اپنے علاقے واگزار کرانے کے لیے کیا ہے۔ جیسی دُرگت بھارت کی چین نے بنائی وہی کچھ آرمینیا کے ساتھ آذربائیجان نے کیا۔ آذربائیجان نے آرمینیا کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے ۔ اپنے بہت سے علاقے واگزار کرا لیے۔ اس کی تیزی سے پیش قدمی جاری تھی کہ عالمی سطح پر جنگ بندی کا واویلا ہونے لگا۔ پوری دنیا سے آذربائیجان کی کوئی خاص مخالفت نہیں کی گئی۔ آرمینیا کو بھی کہیں سے حمایت نہیں مل سکی۔ آذربائیجان حق پر تھا اور آرمینیا اقوامِ متحدہ کی قراردادیں پامال کر چکا تھا۔ ترکی نے بہت کھل کر آذربائیجان کی سپورٹ کی۔ آرمینیا کا الزام ہے کہ ترکی کی فوج آذر بائیجان کی جانب سے لڑ رہی ہے۔ اس کا ایک روسی ساخت کا طیارہ مار گرایا گیا تو آرمینیا نے الزام لگایا کہ یہ ترکی کے پائلٹوں نے ایف سولہ کے ذریعے گرایا ہے۔ دنیا میں کوئی معاملہ ہو بھارت اُس میں پاکستان کو ملوث کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ یہی اس کی پاکستان کے حوالے سے بدنیتی اور بدفطرتی ہے۔ بھارتی میڈیا نے جھوٹ اور لغویات پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ پاک فوج آذربائیجان میں موجود ہے اور آرمینیا کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ آرمینیا کی حکومت نے اپنے کان کو دیکھنے کے بجائے دوڑ لگا دی۔ وہ بھی بھارت کے الزام کو بغیر تحقیق کے دُہرانے لگا جس میں ہرگز سچائی نہیں ہے۔ بہرحال دنیا کے دبائو پر جنگ بندی ہو گئی جس کے چند گھنٹے بعد آرمینیا نے پھر سے حملے شروع کر دیئے جن میں پہلے کی نسبت زیادہ تیزی تھی۔ آذربائیجان نے اپنی کاری ضربوں سے آرمینیا کو دفاع پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کی جارحیت کے کانٹے نکال دیئے تھے مگر جنگ بندی کے بعد آرمینیا پھر جارح بن رہا تھا۔ اس کی وجہ ہے۔جنگ بندی کیلئے سب سے آگے اور متحرک فرانس اور روس تھے۔ انہی کے زیادہ زور دینے پر جنگ بندی ہوئی۔ اس دوران روس اور فرانس آذربائیجان اور آرمینیا کے ساتھ اپنے اپنے طورپر جنگ بندی کی بات چیت کر رہے تھے۔ عین اسی دوران فرانس کی ایئر لائنز کی کمرشل فلائٹس میں آرمینیا کو اسلحہ کی سپلائی ہوتی رہی۔ ادھر روس کے کارگو جہاز کام آرمینیا میں مارے جانے اور زخمی ہونے کی حفاظت اور متاثرین کو خوراک وغیرہ کی فراہمی کے نام پر کرتے رہے۔ ان ممالک کی اس کارروائی کا مقصد آرمینیا کو بازی پلٹ دینے کے قابل بنانا تھا۔ آذربائیجان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تو اس کی طرف سے پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جانے لگا اور وہ اپنے مزید علاقے بازگزار کرا رہا ہے اور ان علاقوں میں قبضہ مضبوط بھی کر رہا ہے۔
آذربائیجان نے اپنے مقبوضہ علاقے آزاد کرائے وہیں،آرمینیا کو شدید مالی اور جانی نقصان سے بھی دوچار کیاجبکہ آرمینیا آذربائیجان کی سول آبادیوں پر حملے کرکے جنگی جرائم کا مرتکب بھی ہوا ہے۔آذربائیجان نے دشمن کی کسی سول آبادی کو نشانہ نہیں بنایا۔آذر بائیجان نے کئی فوجیوں کو جنگی قیدی بھی بنایا ہے ۔ان میں سے ایک انکشاف کیا ہے کہ جہاں سے اس نے تربیت حاصل کی وہاں پندرہ سو کرد بھی فوجی ٹریننگ حاصل کررہے تھے۔اس سے سمجھ آجاتی ہے کہ ترکی میں دہشتگردی کے پیچھے کون ہے ۔
کیا دنیا چاہتی ہے کہ ایسا ہی رول ماڈل کشمیر اور فلسطین کے معاملات اور مسائل میں بھی نظر آئے۔ اب شاید اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں بچا۔ فلسطین کو خود اس کے سرپرستوں نے تنہا چھوڑ دیا۔ فلسطین کی آزادی کیلئے صرف فلسطینی ہی عزم و ارادہ رکھتے ہیں جبکہ کشمیری لاوارث نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کا مقدمہ ہے اور پاکستان اس مقدمے سے کبھی پیچھے رہا ہے نہ آئندہ رہے گا۔ آذربائیجان نے پاکستان کو ایک ماڈل ضرور دکھا دیا ہے۔کشمیر کی آزادی کیلئے یہی رول ماڈل بنتا نظر آرہا۔

ای پیپر دی نیشن