بہت نادم ہوئے آخر وہ میرے قتل ناحق پر

 آج کا کالم کسی اور موضوع، کسی اور واقعہ کے تناظر میں یا کسی اور شخصیت بارے لکھوں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ مورخہ دس اکتوبر بروز اتوار کی علی الصبح کے وہ اداس لمحات تھے جب ہر پاکستانی کی سوچوں میں بسنے والی اور دلوں پر راج کرنے والی وہ شخصیت جس نے دنیا میں پاکستان کے نام کو سلامتی کے حوالے سے ایک دوام بخشا وہ محسن پاکستان،عظمت کا نشان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمت استقلال اور صبر کی ایک داستان رقم کرتے اس دنیا فانی، جہاں سے ہر ذی روح کو چلے جانا ہے، کوچ کر گئے۔
اس سلسلے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر کسی کو اس موت سے استثنیٰ حاصل ہوتا تو وہ یقیناً حضور نبی اکرم صلی علیہ وسلم کی ذات ہوتی لیکن جیسا قانون قدرت ہے اور رَب العزت کا قرآن پاک میں جگہ جگہ ذکر ہے کہ’’ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ تو پھر ایسے لمحہ دل سے ایک ہوک سی اْٹھتی ہے کہ مالک کائنات جیسے تیری رضاء انسان تو بے بس ہے۔ بیشک تْو ہی صاحب اختیار ہے لیکن اسکے ساتھ ہی فکر کی دنیا ہماری توجہ اسی قرآن پاک جس میں کْلّْ نَفْسِ ذائقتہ الموت کا ذکر ہے اسی کے پارہ نمبر 3 اور 4 کی سورہ نمبر 3 آل عمران آیت نمبر 185 کی طرف مبذول کراتی ہے جہاں پر اللہ تعالی فرماتے ہیں‘‘ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہیں قیامت کے دن پورے پورے بدلے ملیں گے، پھر جو کوئی دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا سو وہ پورا کامیاب ہوا، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں۔‘‘
اس آیت کے ایک ایک لفظ پر غور کریں اور ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی کا جائزہ لیں تو پھر پتہ چلے گا کہ قرآن کا ایک ایک لفظ کتنی سچائی پر مبنی ہے اور جس کسی نے اللہ کے احکام کی پاسداری کی اللہ نے اسے کس بلندی سے سرفراز کیا۔ ڈاکٹر قدیر خان کی ذاتی زندگی کے بارے اپنی ذاتی معلومات کے حوالے سے بیشمار دوست روشنی ڈال رہے ہیں۔ انکی ملکی خدمات کسی تعارف کسی تبصرہ آرائی کی محتاج نہیں لیکن مورخہ دس اکتوبر کو جو ایک بات میری روح کو گھائل کر گئی سوشل میڈیا پر انکی بیٹی کے حوالے سے وائرل ہونے والے اس بیان کے وہ الفاظ ہیں جو کچھ اسطرح ہیں کہ ‘‘ آج میرے والد پاکستان کی قید سے ہمیشہ کیلیئے آزاد ہو گئے’’ میں اس بیان کی صحت بارے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یقین جانیئے اگر یہ اْنہی کے الفاظ ہیں تو میں پھر بھی انکے ان الفاظ سے اتفاق نہیں کرتا۔ وہ پاکستان کی قید سے آزاد نہیں ہوئے بلکہ قیامت تک اپنی ذات اور پاکستان کے درمیان ایک ایسا رشتہ استوار کر گئے جسکو کبھی زوال نہیں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج اگر امام صحافت جناب مجید نظامی زندہ ہوتے تو اس موقعہ پر اْنھوں نے اس ہیرے کی خدمات کا ذکر خیر ہی نہیں کرنا تھا بلکہ اس کوہ نور کی شان میں قصیدہ گوئی کے کئی باب رقم کرنے تھے کیونکہ انکے نظریہ کے مطابق قائد اعظم کے بعد پاکستان کی وہ واحد غیر متنازعہ شخصیت جسکے احسان تلے پوری قوم دبی ہے وہ ڈاکٹر قدیر خان تھے۔ یہی وجہ تھی اور تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک غاصب نے شخصی مفاد کی خاطر قوم کے اس ہیرو کے ساتھ انتہائی سفاکانہ تذلیل پر مبنی رویہ اپنایا تو سب سے پہلے نظامی صاحب نے ہی اسکے خلاف احتجاج کیا اور آواز اْٹھائی۔ بلاشبہ جو غیر انسانی رویہ آپکے ساتھ برتا گیا اور جس قید تنہائی کے اذیت ناک لمحات سے آپکو گزارا گیا وہ کسی طور قابل معافی نہیں لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہم کربلا سے یہ روایت اپناتے آ رہے ہیں۔ بانی پاکستان کے آخری ایام کی داستان نے بھی ہمارے رویوں پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑے ہوئے ہیں۔ قائد ملت کا بیہمانہ قتل بھی الگ داستان سمیٹے ہوئے ہے۔ ہم نے اسی ایٹمی پروگرام کے بانی ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر چل نکلا تو آج تاریخ کے کچھ صفحات کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ میرے ہاتھ 1977ء میں لاہور ہائی کورٹ بار کی ایک ریزولیشن کی کاپی لگی جس میں بھٹو صاحب کی ذات کے حوالے سے انکے کچھ اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ قارئین آپ جاننا چاہیں گے کہ اسکو پیش کرنے والا کون تھا۔ جی یہ وہ ہستی تھی جو اسی بھٹو صاحب کی پارٹی کے پلیٹ فارم کو ہی استعمال کر کے آجکل عدلیہ کی اہم ترین بار کا الیکشن لڑ رہی ہے۔ سو ڈاکٹر صاحب آج نہیں تو کل اسی طرح آپ پر انگلیاں اْٹھانے والے بھی آپکی تصاویر اپنے سینوں پر ضرور سجائینگے۔ ایسے میں یہاں پر کسی صاحب دانش کا ایک قول منقول کرنا چاہونگا,, ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا اور دلوں میں زندہ وہی رہتے ہیں جو خیر بانٹتے ہیں, محبتیں بانٹتے ہیں‘‘ آسانیاں بانٹتے ہیں’’۔ ڈاکٹر صاحب آپ کہاں آزاد ہوئے آپ تو پوری قوم اور اسکی آئندہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں اپنی حب الوطنی کے حوالے سے کئی شہر آباد کر گئے سب سی بڑی بات ڈاکٹر صاحب اس سے زیادہ آپکی ذات پر اللہ کا اور کیا کرم ہو گا کہ آپ تاریخ کے وہ خوش نصیب اور بہادر انسان ہیں جنکے جنازے میں کوئی بزدل اور منافق شریک نہیں ہوا۔ مولانا حسرت موہانی کے یہ اشعار شائد اپکے لیئے ہی لکھے گئے۔
گھٹے گا تیرے کوچے میں وقار آہستہ آہستہ
بڑھے گا عاشقی کا اعتبار آہستہ آہستہ
بہت نادم ہوئے آخر وہ میرے قتل ناحق پر
ہوئی قدر وفا جب آشکار آہستہ آہستہ
جلائے شوق سے آئینہ تصویر خاطر میں
نمایاں ہو چلا روئے نگار آہستہ آہستہ
محبت کی جو پھیلی ہے یہ نکہت باغ عالم میں
ہوئی ہے منتشر خوشبوئے یار آہستہ آہستہ
یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ فکر نہ کریں جن کرداروں نے آپکی تذلیل کی ایسے بے ظرفوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کریگی اور آپ ہمیشہ زندہ رہینگے۔

ای پیپر دی نیشن