جی این بھٹ
27 اکتوبر 1947ء تاریخ کشمیر کا وہ بدترین دن ہے جس دن بھارت کی غاصب افواج کے ناپاک قدم ارض کشمیرپر اترے۔ 14 اگست 1947ء کے تقسیم ہند منصوبے کی روسے مسلم اکثریتی ریاستوں کو پاکستان اور ہندو اکثریتی ریاستوں کو بھارت کے ساتھ مدغم ہونے یا الحاق کرنے کی اجازت تھی۔ اس کام کے لیے واضح فارمولا تیار کیا گیا۔ اس وقت کشمیر ، جونا گڑھ اور حیدر آبادمیں تین نیم خودمختار حکمرانوں کی حکومت تھی۔ ان میں سے جوناگڑھ اور حیدر آباد میں ریاستی عوام کی اکثریت ہندو تھی اور جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ جوناگڑھ میں نواب آف جونا گڑھ اور میر نظام حیدر آباد مسلم حکمران تھے۔ جموں کشمیرمیں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ اس قانونی فارمولے کے تحت جموں کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا اس لیے بھی آسان تھا کہ یہ ریاست جغرافیائی طور پر پاکستان کے ساتھ متصل تھی۔ سیالکوٹ سے لے کر سیاچین تک کا علاقہ پاکستان کی سرحدسے ملتا ہے۔ جموں کشمیر کی آبادی بھی 76 فیصد سے زیادہ مسلمان تھی۔ان تمام حقائق کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ کی قیادت میں وفد نے مہاراجہ ہری سنگھ کو یقین دلایا خود قائداعظم نے ریاست کی حیثیت جیسی ہے اسے ویسے ہی رکھنے کی یقین دہانی کرا کے صرف پانچ امور پاکستانی حکومت کے پاس رکھنے کا یقین دلایا تاکہ کشمیر کے الحاق پاکستان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ یہ نہایت فراخدلانہ پیشکش تھی۔ جس سے پاکستان کی۔ شروع میں تو مہاراجہ نے حامی بھر لی۔ اس کے ساتھ ہی پوری ریاست جموں کشمیر کی سرکاری عمارتوں پر سبز ہلال پرچم لہرا دئیے گئے۔ پوری وادی کشمیر اور جموں میں پاکستان سے الحاق کی خوشیاں منائی جانے لگیں۔ عمارتوں اور گھروں پر لوگوں نے چراغاں کا اہتمام کیا۔
مگر یہاں ہندوستان کی مکار ہندو سیاسی قیادت نے روایتی چالبازیوں سے کام لیتے ہوئے کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کے آنکھوں پر حکومت اور حرص کی ایسی پٹی باندھی کہ وہ اصل زمینی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے کانگریسی سیاستدانوں نہرو اورپٹیل کی باتوں میں آ گیا۔ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی کانگریس کے ان مکار سیاسی رہنمائوں نے کمال مکاری کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا اور اسے مجبور کیا جانے لگا کہ اگر وہ اپنی حکومت اور تخت بچانا چاہتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ الحاق سے باز رہے اس میں ٹال مٹول کر کے تاخیری حربے استعمال کرے۔ کیونکہ پاکستان مسلم اکثریتی ملک ہے وہاں مہاراجہ کی حکومت کوزیادہ دیر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب بھارت کی حکمران جماعت کانگریس نے نیشنل کانفرنس کے رہنما شیخ محمدعبداللہ کو جو اس وقت جموں کشمیر میں ایک مقبول عوامی لیڈر تھے کو اپنے دام میں گھیر لیا۔ نہرو اور پٹیل کیلئے آسان شکار شیخ عبداللہ تھا۔ وہ اپنی تعریفوں کے قصے سن سن کر ان دونوں پر لٹو ہو چکا تھا۔ نیشنل کانفرنس عملاً آل انڈیا کانگریس کی بغل بچہ تنظیم بن چکی تھی۔ شیخ عبداللہ زمینی حقائق فراموش کر کے ہندوئوں کے جھوٹے نیشنلزم کے دعوئوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ وہ بھول گئے کہ ہندو اکثریتی ملک میں کشمیریوں کی کیا حیثیت ہو گی۔
ان حالات میں جب کشمیری مسلمانوں نے دیکھا کہ مہاراجہ الحاق پاکستان پر رضامند ہونے کے باوجود کانگریس کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہے تو وہ خاموش نہ رہ سکے۔ گلگت بلتستان اور جموں کشمیر کے پہاڑی علاقے میں بڑی تعداد میںبرٹش آرمی کے تربیت یافتہ لوگ بپھر اٹھے اور انہوں نے مہاراجہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ ہزاروں سابقہ فوجی اور جوان بغاوت پر اتر آئے۔ یوں ریاست جموں کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔ گلگت بلتستان میں جلد ہی مہاراجہ کی ڈوگرہ فوج کو علاقے میں پے درپے شکستوں کے بعدبھاگنا پڑا۔ جموں کے وہ علاقے جو آج آزادکشمیر کہلاتے ہیں یہاں بھی مسلح باغیوں کو پے درپے کامیابیاں ملنے لگیں تو سرحدی علاقوں کے مسلح پٹھان بھی اپنے مسلم بھائیوں کی امداد کے لیے کشمیر میں آنے لگے۔ اب تو نیشنل کانفرنس ، انڈیا کانگریس اور مہاراجہ کی ڈوگرہ فوج حواس باختہ ہونے لگی۔ انہیں ریاست میں اپنی سیاسی موت نظر آنے لگی تو انہوں نے مہاراجہ پر دبائو بڑھا دیا۔ دوسری طرف مسلح مجاہدین بارہ مولا تک جا پہنچے تو مہاراجہ اپنی ساری دولت اور قیمتی اشیاء لے کر سرینگر سے جموں فرارہو کر جا پہنچا جہاں اس کو آسانی سے ہندو مہا سبھائی ٹولے نے گھیر لیا۔ افراتفری کا عالم تھا مہاراجہ نے اپنی حکومت اور دولت بچانے کے لیے نہرو ، شیخ عبداللہ اور پٹیل کی باتوں میں آ کر جہاز پکڑا اور دہلی جا پہنچے جہاں انہوں نے عالم خوف میں بقول بھارتی رہنمائوں کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔ مگر خود مہاراجہ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ کی بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر گواہ ہے کہ یہ ایک جبری اور نامکمل معاہدہ ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور کرن سنگھ کو ابھی تک مہاراجہ کی قانونی حیثیت حاصل ہے۔ بہرحال اس الحاق کے اعلان کے ساتھ ہی مہاراجہ نے بھارت سے اپیل کی کہ اس کی ریاست کو مسلح مجاہدین سے بچانے کے لیے فوری فوجی امداد دے۔ جس پر 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج نے زمینی اور فضائی آپریشن شروع کیا۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے مسلح دستے داخل ہونا شروع ہوئے۔بارہ مولہ تک پہنچنے والے مجاہدین فضائی بمباری اور جدید فوجی ہتھیاروں کا مقابلہ نہ کر سکے اور واپس پلٹنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اگر سرحدی مجاہدین بارہ مولہ پر قبضے کے بعد وہاں وقت ضائع نہ کرتے ، مال غنیمت اکٹھا کرنے کی بجائے سرینگر کی طرف پیش قدمی جاری رکھتے تو آج مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ ہی کچھ اور ہوتی مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا مجاہدین نے کئی دن بارہ مولہ میں ضائع کئے۔ اس پر بھارتی فوج کو مہلت مل گئی ورنہ بھارتی طیارے سرینگر پر اترنے کی ہمت ہی نہ کر پاتے۔ ان کی آمد سے قبل ہی مجاہدین سرینگر میں داخل ہوکرقبضہ کر چکے ہوتے،مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
بھارتی فوج کی کشمیر میں آمد نے ساری بازی پلٹ دی۔ اس کے ساتھ الحاق ہندوستان کے جبری جھوٹے معاہدے نے سیاسی صورتحال کو مزید ابتر کر دیا۔ ا س موقع پر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی واضح ہدایات کے باوجود پاکستان میں مقیم انگریز (برطانوی) فوجی افسروں نے کشمیر میں پاکستانی فوج کو کارروائی کرنے کی اجازت نہ دی۔ یوں بھارت کو یکطرفہ طور پر کشمیر میں قبضہ جمانے کا آسان ترین موقع مل گیا ہے اور یہ غاصبانہ قبضہ آج تک جاری ہے۔
یوں 27 اکتوبر کا دن کشمیریوں کی غلامی کی سیاہ رات کا آغاز ثابت ہوا۔ اگر پاکستانی فوج کو برطانوی فوجی افسروں کی طرف سے اجازت ملی ہوتی تو بھارت کے لیے ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کرنا کبھی آسان نہ ہوتا۔ مگر ہندو انگریز سیاسی و عسکری گٹھ جوڑنے ایسا ہونے نہ دیا۔ جس کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کا بڑا حصہ بھارت کی غلامی میں چلا گیا۔
آج 72 برس گزرنے کے باوجود یہ غلامی کی سیاہ رات ختم نہیں ہوئی۔ کشمیری 1947ء سے اس غلامی کی سیاہ راست کواپنے لہو کا نذرانہ دے دے کر کاٹ رہے ہیں۔ مگر افسوس عالمی برادری کشت خون میں ڈوبی اس وادی کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ بھارت نے 1947ء میں ازخود یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا کہ مسلم مجاہدین کو کشمیر میں داخلے سے روکا جائے۔ حالانکہ اس وقت خود اس کی فوج کشمیر میں گھسی ہوئی تھی۔ عالمی برادری کی تجویز پر اس شرط پر جنگ بندی عمل میں آئی کہ دونوں ممالک مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں رائے شماری کروا کے کشمیریوں کی مرضی کے مطابق انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں گے مگر چشم فلک گواہ ہے کہ بھارت نے آج تک اس رائے پر عمل نہیں کیا اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ اس تجویز کی اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔ اس کے برعکس اب 2019 ء میں بھارت نے نہایت بے شرمی اور ڈ ھٹائی سے پوری ریاست جموں کشمیر کو اپنی ریاست قرار دے کر اس کی آئینی اور خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے۔ یوں کشمیری مسلمانوں سے خصوصی حیثیت کا لولی پاپ جو نہرو نے شیخ عبداللہ کو دیا تھا وہ بھی ان سے چھین لیا گیاہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے عالمی برادری متنازعہ قرار دئیے جانے کے باوجود بھارت کے اس سنگین اور عالمی طے شدہ اصولوں کے خلاف اقدام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ 27 اکتوبر 1947ء سے لے کر آج تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے دے کر تحریک آزادی کشمیر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ بے گناہوں کا لہو کبھی رائیگاں نہیں جاتا جلد یا بدیر یہ ضرور رنگ لائے گا۔ بقول شاعر
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
آج کے دن مقبوضہ کشمیر۔ آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں آباد کشمیری بھارت کے کشمیر پر قبضے اس کی فوجی جارحیت کیخلاف احتجاج کر کے عالمی اداروں اور بڑی طاقتوں کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭