انہوںنے! کنہوں نے!


عمران خان نے کہا ہے کہ مقتول صحافی ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے کیلئے انہی نے آمادہ کیا تھا کیونکہ یہاں ان کی جان کو خطرہ تھا۔
حیرت ہے‘ دنیا کا محفوظ ترین مقام پاکستان کے اندر واقع ہے‘ پھر بھی عمران خان نے ارشد شریف کو باہر بھجوا دیا جہاں کسی نے انہیں مار ڈالا۔ دنیا بھر میں بنی گالہ واحد جگہ ہے جہاں کسی کوخطرہ نہیں ہے۔ یہ وائٹ ہاﺅس سے بھی زیادہ محفوظ جگہ ہے۔ یہاں چڑیا پر اور پولیس چھاپہ نہیں مار سکتی۔ پولیس پارٹیاں جب کسی نقص امن کی اطلاع پر وہاں جاتی ہیں تو گیٹ سے سو گز دور رہتی ہیں کہ مزید ایک گز آگے جانے سے پر جل سکتے ہیں۔ وہاں جانے کا وارنٹ مل جائے تب بھی کوئی نہیں جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں جانے کا وارنٹ بھی کسی کو نہیں ملتا۔ عمران خان کو ارشد شریف کی جان عزیز تھی تو اسے بنی گالہ بلا لیتے اور ایک کمرہ ازاراہ عنایت اسے عنایت کر دیتے‘ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ارشد شریف کینیا چلا گیا۔ وہاں جاتے ہی جان سے گیا۔
................
ارشد شریف کا قتل ٹارگٹ کلنگ ہے۔ بلاشبہ! اس لئے کہ ایسا خان صاحب نے کہا ہے اور خان صاحب نے جب بھی کچھ کہا‘ سچ کہا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہا۔ ارشد شریف کو ان لوگوں نے مار دیا۔ بلا شک۔ اس لئے کہ ایسا خان صاحب نے کہا اور خان صاحب نے جب بھی کچھ کہا‘ سچ کہا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہا۔
”انہوں نے“ کے الفاظ خان صاحب کے ہیں۔ انہوں کے بعد کنہوں کا لفظ آتا ہے‘ لیکن خان صاحب نے کنہوں پر روشنی نہیں ڈالی۔ انہوں نے روشنی صرف انہوں پر ڈالی۔ کنہوں پر روشنی نہیں ڈالی۔ کنہوں پر روشنی ڈالنے کی ذمہ داری حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیٹی پر ڈال دی ہے۔ جو سنا ہے کینیا بھی جائے گی اور وہاں جا کر ”کنہوں“ سے ملنے کی کوشش کرے گی۔ کنہوں میں‘ شبہ ہے کہ وہ تین لوگ بھی شامل تھے جو فائرنگ کے وقت مقتول کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔
................
پی ٹی آئی کے حلقے بتا رہے ہیں کہ نیروبی پولیس نے ارشد شریف کی گاڑی پر چاروں طرف سے فائرنگ کی اور برسٹ مارے۔ گاڑی ہر طرف سے چھلنی کر دی۔ پی ٹی آئی کے اینکر پرسن نے اپنے ٹی وی پروگرام میں بڑے وثوق سے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ پولیس نے آگے‘ پیچھے سے‘ دائیں سے‘ بائیں سے‘ ہر طرف سے گھوم گھوم کر برسٹ مارے۔
کتنے برسٹ مارے‘ کار پر نو گولیوںکے نشانات ہیں۔ لگتا ہے کہ زیادہ تر برسٹ خالی گئے۔ کار کو چاروںطرف سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا‘ لیکن جان صرف ارشد شریف کی گئی۔ باقی تینوں محفوظ رہے۔ اینکر صاحب کی گفتگو سن کر مولانا طارق جمیل یاد آگئے۔ اینکر کی جگہ وہ ہوتے تو بتاتے کہ گاڑی پر اوپر سے‘ نیچے سے‘ دائیں سے‘ بائیں سے‘ آگے سے‘ پیچھے سے ہر طرف سے فائرنگ کی گئی‘ لیکن چونکہ وہ نہیں تھے‘ اس لئے اینکر نے اوپر اور نیچے سے فائرنگ کا ذکر گول کر دیا۔ 
................
پی ٹی آئی نے اشاروں کنایوں میں واضح کر دیا ہے کہ ”انہوں“ سے خان صاحب کی مراد کیا ہے۔ واضح کیا کیا ہے‘ فیصلہ سنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا ہرفرد ”انہی“ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ قتل کینیا کی پولیس نے کیا ہے اور ابھی وہاں کے حکام کو بھی پتہ نہیں چلا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا‘ لیکن ہمارے پی ٹی آئی کے احباب دور کی نظر اور غیب کی خبر رکھتے ہیں۔ چنانچہ فیصلہ دیدیا اور اب ”انہوں“ کو بددعائیں بھی دی جا رہی ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نہ صرف تحقیقات کی جائے بلکہ بے بنیاد الزامات لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پی ٹی آئی کے الزامات کبھی بے بنیاد نہیں ہوتے۔ ہمیشہ با بنیاد ہوتے ہیں۔ مثلاً جب انہوں نے 35پنکچر کا الزام لگایا تو اس کی باقاعدہ بنیاد تھی۔ یہ بنیاد ایک ٹی وی اینکر کا ”لطیفہ“ تھا۔ لطیفہ ہو یا ثقیلہ ‘ بنیاد تو بنیاد ہوتی ہے۔ اسی طرح تازہ ترین سے ذرا پہلے کا تازہ ترین الزام۔ امریکی سائفر“ کا تھا۔ یعنی وہ مراسلہ جوامریکہ میں پاکستانی سفارتکار نے بھیجا‘ اس الزام کے تحت امریکی سازش کا الزام تھا۔ اس الزام کی بھی ٹھوس بنیاد موجود تھی۔ یعنی عمران خان اور اعظم خان پرنسپل سیکرٹری کے درمیان ہونے والی مشاورتی گفتگو۔
 ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی کے الزامات کی ٹھوس بنیاد ہوا کرتی ہے۔
................
بہرحال‘ اب یہ بات کون معلوم کرے گا کہ مقتول صحافی کینیا کے اس گاﺅں میں کیوں گیا تھا جہاں سے واپسی کا سفر اس کا آخری سفر ثابت ہوا۔ اس گاﺅں میں کون لوگ تھے جنہوں نے مقتول کی جان لی۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے تو ہو نہیں سکتے۔ پھر وہ تین افراد کون تھے جو مقتول کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ یہ بھی مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کے تو ہو نہیں سکتے۔ ان تین خوش قسمت افراد کا سیاق و سباق معلوم کرنا لازمی ہے جن کو چاروں طرف سے فائر ہونے کے باوجود کچھ نہ ہوا۔ تحقیقاتی کمیٹی یہی معلوم کرنے کینیا جائے گی۔
................
خان صاحب نے ارشد شریف کے قتل کو جواز بنا کر لانگ مارچ ”پری میچور“ ہی شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پہلے کہا تھا‘ جمعرات یا جمعہ کو تاریخ کا اعلان کروں گا‘ پھر کہا کہ اعلان ہفتہ کے روز کروں گا‘ لیکن اب وہ کل ہی سے یہ مارچ کر رہے ہیں۔ مارچ کا آ غاز لبرٹی چوک لاہور سے ہوگا جہاں ایک بڑا اجتماع ہوگا۔ پی ٹی آئی کے ایک حامی تجزیہ کار اس پر دکھی تھے۔ فرماتے تھے کہ لبرٹی چوک بہت چھوٹا چوک ہے‘ یہاں دو تین کروڑ سے زیادہ لوگ آہی نہیں سکتے۔ باقی کروڑوں لوگ کہاں جائیں گے۔ ان صاحب کوکسی بڑے مقام سے آغاز کرنا چاہئے تھا۔ مثلاً موچی دروازہ سے۔
................
ان صاحب نے اپریل میں بتایا تھا کہ عمران خان کی حکومت جب ختم ہوئی تھی تو سڑکوں پر آکر مظاہرے کرنے والوں کی تعداد دس کروڑ سے زیادہ تھی۔ ظاہر ہے اب جبکہ ارشد شریف کے قتل ہونے سے خان کی مقبولیت میں ا بھی اضافہ ہو چکا ہے‘ مارچ کے شرکاء20 کروڑ سے کم تو ہو ہی نہیں سکتے۔
................
لانگ مارچ کی جو تفصیل ملی ہے ‘ اس کے مطابق یہ جمعہ ہی کی رات اسلام آباد نہیں پہنچے گا بلکہ راستے میں رک رک کر ہفتہ بھر لگائے گا۔
نوازشریف نے ”مجھے کیوں نکالا“ کا سفر اسی طرح کیا تھا۔ کئی روز بعد پنڈی سے لاہور پہنچے تھے۔ یہ ماجرا 2017ءکا ہے۔ جو کام نوازشریف نے پانچ سال بعد کیا تھا‘ خان صاحب اب کر رہے ہیں۔
فرق البتہ ہے۔ نوازشریف کی سمت الٹی تھی‘ لیکن یعنی پنڈی سے لاہور‘ خان صاحب نے سمت کا درست تعین کیا ہے۔ لاہور سے پنڈی۔ اطلاع یہی ہے‘ اسلام آباد نہیں جائیں گے‘ اس کے کنارے پنڈی کی حدود میں ہی کیمپ لگائیں گے۔ حدود عبور نہیں کریں گے کہ آ گے حکیم ثناءاللہ بیٹھا ہے۔ حکیم بھی ایسا کہ سنیاسی بابا بھی ہے۔ سنیاسی بابوں سے اللہ بچائے۔
نکتے کی بات یہ ہے کہ ”ارشد تحقیقات“ میں لوگ قائد انقلاب کی طرف انگلی اٹھا رہے ہیں اور اس سفر ہفت روزہ اور قیام ”سی روزہ“ (30 دن) کے دوران کوئی انگلی بھی نہیں لگا سکے گا۔ گویا ایک حفاظتی شیلڈ تنی رہے گی۔ آگے کیا ہوگا‘ آگے چل کر ہی پتہ چلے گا۔

ای پیپر دی نیشن