پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک مرتبہ پھر روایتی گرم جوشی آتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف جب بھی سعودی عرب گئے ہیں گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا گیا ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں سرد مہری آئی تھی اور باوجود کوشش کے بہتری نہیں آ سکی لیکن اب حکومت میں تبدیلی کے بعد سعودیہ سے دوبارہ اہم معاملات پر مسلسل بات چیت ہو رہی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ یہ بہت حساس معاملہ بھی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے ہیں اور ہر مشکل وقت میں بھرپور انداز میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سعودیہ اور امریکہ کے مابین تعلقات کشیدہ ہوئے تو پاکستان نے واضح انداز میں سعودی حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ سعودی عرب بھی ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان وفد کو چھوڑ کر وزیراعظم کو اپنے فارم ہاو¿س پر عشائیے میں لے گئے، گاڑی بھی خود چلائی، دونوں رہنماو¿ں کے درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کو دورہ سعودی عرب کے ثمرات عوام تک پہنچانے اور حقائق پاکستانیوں کے سامنے ضرور رکھنا ہوں گے۔ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات دونوں ملکوں، خطے اور دنیا کے لیے اہم ہیں۔
عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اور یہ لانگ مارچ ماضی کے لانگ مارچ سے نسبتاً مختلف ہو گا کیونکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ یہ لانگ مارچ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی حکومت کے لیے بھی امتحان ہے۔ حکومت یہ مت سمجھے کہ ایک لانگ مارچ ناکام ہوتا ہے تو عمران خان گھر بیٹھ جائیں گے وہ دوبارہ آئیں گے اور جب تک انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا اس وقت تک وہ سڑکوں پر ہی رہیں گے۔ موجودہ حکومت بھی پی ٹی آئی حکومت کی طرح سیاسی اور انتظامی غلطیاں کیے جا رہی ہے۔ حکومت عمران خان کے مطالبے پر ضد کے بجائے مذاکرات کی میز پر آئے پی ٹی آئی کی طرف سے آئندہ عام انتخابات کے اعلان کا مطالبہ سیاسی مطالبہ ہے اور سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی طرف جاتی ہیں۔ جب عمران خان مذاکرات کی بات کر رہے ہیں تو پھر حکومت کو بھی مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ لانگ مارچ کی صورت میں بدامنی پھیل سکتی ہے اور ارشد شریف کے کینیا میں قتل کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بھی ابھرا ہے اس لیے ان حالات میں ملکی سطح پر کوئی بھی بڑی سیاسی سرگرمی کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ اگر اگست دو ہزار تیئیس میں انتخابات ہو جائیں تو بری بات نہیں مارچ اپریل میں انتخابات کا اعلان ہونے سے اگر ملک سیاسی انتشار سے بچ سکتا ہے تو اس معاملے پر بات چیت میں کیا حرج ہے۔ لانگ مارچ میں پنجاب سے لوگ شامل ہوں گے آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا سے بھی لوگ شریک ہوں گے پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں تو حکومت کے پاس کیا راستہ ہو گا۔ نقصان اٹھانے کے بعد مذاکرات کی طرف جانے سے بہتر نہیں کہ پہلے ہی بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ جہاں تک تعلق موجودہ سیاسی جماعتوں کا ہے ان میں سے مذہبی اور تمام سیاسی جماعتیں انیس سو ستر سے انیس سو پچاسی اور انیس سو پچاسی سے دو ہزار بائیس تک سب لوگ مختلف وقتوں میں اقتدار کا حصہ رہے ہیں اس لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ ملک کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار صرف عمران خان ہے یا اس کے ساتھے تین سال میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔
اگر موجودہ حکمرانوں نے ماضی میں بہتر فیصلے کیے ہوتے تو آج ملک انتظامی، سیاسی اور معاشی طور پر زیادہ مضبوط اور اچھی حالت میں ہوتا۔ غلطیاں عمران خان نے بھی کیں اور اور غلطیاں موجودہ حکمران بھی کر رہے ہیں جو آئے گا وہ بھی غلطی کرے گا لیکن عقلمند وہ ہے جو غلطیوں سے سیکھتا ہے لیکن ہمارے سیاستدان آج تک غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ یہ سب سمجھتے ہیں کہ مارشل لاءکے دروازے بند ہو چکے ہیں لیکن یہ سب مل کر اس دروازے کو کھولنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔ اگر مارشل لاءلگتا ہے تو اس کے ذمہ دار صرف اور صرف سیاست دان ہوں گے۔ پھر آج بھی پاکستان تحریکِ انصاف سمیت ان تمام سیاسی جماعتوں کو غلط فہمی ہے کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اصل مقابلہ پنجاب میں ہوتا ہے اور پنجاب میں بھی جنوبی پنجاب کی سیاسی تاریخ اور روایات وسطی پنجاب سے بہت مختلف ہے۔ جنوبی پنجاب میں وڈیروں، مل مالکان اور جاگیر داروں نے انتخابات میں حصہ لینا ہے اور ان کا کوئی سیاسی نظریہ، سوچ یا حکمت عملی اور وفاداری نہیں ہوتی بلکہ جو سیاسی جماعت انہیں مستقبل کے حوالے سے زیادہ بہتر خواب دکھاتی ہے وہ اس کا حصہ بنتے ہیں اور اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرتے ہوئے وقت گذارتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں سندھ کی طرز پر وڈیرا کلچر قائم ہے اور اس سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔ اسی طرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے بھی مختلف نتائج آتے ہیں اس لیے کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اکیلا حکومت بنا سکتا ہے۔ سیاست دان ہوش مندی سے کام لیں عوام کو تقسیم در تقسیم نہ کریں۔ حکومت اس لانگ کو مارچ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، ضد اور ہٹ دھرمی یا بات چیت کے دروازے بند ہونے سے مسائل میں اضافہ ہو گا پیشتر اس کے کہ کوئی باہر سے آئے اور سب کو آو¿ٹ کر دے اپنی چیزوں کو خود ٹھیک کریں۔ اگر قومی سلامتی کا خطرہ لاحق ہوا، امن و امان کی صورتحال خراب اور قابو سے باہر ہوئی تو پھر کسی بھی قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں پھر جمہوریت جمہوریت اور جمہوریت کے نعرے لگانے کے لیے بھی وقت نہیں بچے گا۔
کوئی غلط فہمی میں نہ رہے!!!!
Oct 27, 2022