مارچ کو بھارت سے ایک جوہری میزائل پاکستان کی حدود میں میاں چنوں کے قریب کم آبادی والے علاقے میں آ گرا، اس میزائل پر وار ہیڈ نہ ہونے کے سبب یہ کسی تباہی کا باعث نہیں بنا لیکن دو جوہری قوتوں کے مابین ایک ملک سے سرحد پار جوہری میزائل لانچ ہونا ایسا واقعہ نہیں تھا جسے سرسری قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکے ۔ دو حریف ایٹمی طاقتوں کے مابین ایسا واقعہ عالمی سطح پر جوہری جنگ کا باعث بن سکتا ہے جس میں کروڑوں جانوں کے ضیاع کا احتمال موجود ہے۔ پاکستان نے فی الفور اس اس میزائل کو تحویل لے کر تحقیقات شروع کر دی اور ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار نے تب اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو اس اس حوالے سے مطلع کیا۔ پاکستان کی جانب سے بجا طور پر مطالبہ کیا گیا کہ اس انتہائی سنگین واقعے کی مشترکہ طور پر تحقیقات کی جانے کی ضرورت ہے جبکہ بھارتی حکام کی بوکھلاہٹ اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم تھا کہ دو روز تک ہندوستان نے اپنے اس میزائل کی لانچنگ کا اعتراف تک نہیں کیا۔ بہرحال عالمی سطح پر یہ معاملہ اجاگر ہونے کے بعد انڈیا نے اس واقعے کو ” حادثاتی لانچ“ کہہ کر اس کی سنگینی کم کرنے کی ناکام کوشش کی مگر یہ امر اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ فروری میں روس اور یوکرین کے مابین جنگ شروع ہوئی، روس نے اپنی افواج یوکرین میں داخل کیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کو بڑی جنگ کی دھمکیاں دیتے نظر آئے۔ ایسے میں اس جنگ کے آغاز کے محض چند روز بعد ایک ایٹمی قوت کے حامل میزائل کا پاکستان میں گرنا اتنا بڑا خوفناک حادثہ تھا جس پر تشویش ظاہر کرنے کیلئے الفاظ ڈھونڈ پانا بھی ممکن نہیں۔
اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ ”براہموس “ نامی یہ جوہری میزائل بھارت اور روس نے مشترکہ طور پر بنائے اور بھارت اس وقت دنیا بھر میں اسے اپنے دفاعی پیداوار کے طور پر بیچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یہ بات خصوصی طور پر مد نظر رکھی جانی چاہیے کہ اسی برس یعنی جنوری 2022 میں فلپائن نے یہ میزائل خریدنے کیلئے بھارت کیساتھ 375 ملین ڈالر کی ڈیل کی تھی جو ابھی تک ہندوستان کا سب سے بڑا دفاعی فروخت کا معاہدہ ہے۔ اس ڈیل کے محض ساٹھ روز بعد اس ایٹمی میزائل کے پاکستانی حدود میں گرنے کا واقعہ پیش آ گیا۔ مبصرین کے مطابق بھارت کا اس واقعے کو ” حادثاتی لانچ“ قرار دینا اور خانہ پُری کیلئے فضائیہ کے تین افسران کو برطرف کرنا خود بھارت کی نا اہلی اور انتہائی تباہ کُن ہتھیاروں کو سنبھالنے میں غیر سنجیدہ رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے تبھی تو ہندوستان متعدد تکنیکی غلطیوں کے انکشاف کے خوف سے ابھی تک مشترکہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے پاکستانی مطالبے کو ٹالتا آ رہا ہے۔ اس امر سے سب بخوبی واقف ہیں کہ ” ہندوستانی مسلح افواج کی 2017 کی مشترکہ ڈاکٹرائن“ کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی لانچنگ کی اجازت محض بھارتی وزیراعظم ہی دے سکتے ہیں جو وہاں کی نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کے سربراہ ہیں ، ایسے میں اس نوع کے تباہ کن میزائل کا پاکستان میں فائر ہونا انڈین جوہری اثاثوں کی حفاظت اور انکی دیکھ ریکھ کے طریقہ کار پر تشویشناک سوال اٹھاتا ہے حالانکہ سیکورٹی پروٹوکولز کے مطابق ایسی لانچنگ کی صورت میں مخصوص کوڈز کو متعدد کمیونیکیشن چینلز پر بھیجا جاتا ہے تا کہ ہتھیار کا انچارج آفیسر یہ تصدیق کر سکے کہ آیا یہ لانچنگ کا مستند آرڈر ہے بھی یا نہیں۔ تبھی تو بھارت نے سرسری تحقیقات کے بعد اگست 2022 میں ایک گروپ کیپٹن ، ونگ کمانڈر اور سکوارڈن لیڈر کو واقعے کا ذمہ دار قرار دے کر فضائیہ سے برطرف کر دیا اس سارے واقعے کو ” انسانی غلطی “ قرار دینے کی کوشش کی جبکہ واقفانِ حال اس رائے پر متفق ہیں کہ اس ایٹمی میزائل کا پاکستان میں گرنا انسانی سے زیادہ ” تکنیکی“ اور ” پیشہ وارانہ“ غفلت تھا مگر بھارت نے اس بات کو انسانی غلطی کی آڑ میں دبا دیا کیونکہ اس کی تکنیکی خامیاں منظر عام پر آنے کی صورت میں بھارت فلپائن معائدہ فی الفور ختم ہو سکتا تھا۔
ماہرین نے اس تناظر میں کہا ہے کہ ہندوستان نے براہموس نامی ان جوہری میزائلوں کی تین رجمنٹ کو پاکستان اور چین کی سرحد پر نصب کر رکھا ہے جبکہ چوتھی رجمنٹ کی تنصیب کیلئے بھی ہری جھنڈی دی جا چکی ہے، 9 مارچ کے واقعے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بھارت نے ان میزائلوں کا رُخ پاکستان اور چین کی جانب کر رکھا ہے جس سے اس میزائل کی لانچنگ کا اقدام ” غلطی“ سے زیادہ پاکستان کے ردعمل کو جاننے کیلئے ” ٹو لگانے کی سوچی سمجھی کوشش“ ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے تناظر میں ” نو فرسٹ یوز“ کی پالیسی سے بھی ہٹ رہا ہے یوں یہ میزائل فائر کر کے ہندوستان نے پاکستانی ردعمل جانچنے اور وطن عزیز کی ملٹری و نیوکلیئر پالیسی میں خلا تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اسے اپنے ان مذموم ارادوں میں اسے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لے کر غالباً یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کا جوہری پروگرام کسی بھی طور محفوظ ہاتھوں میں نہیں اور کسی بھی ” پیشہ وارانہ نا اہلی “ یا “ بد دیانتی “ کے نتیجے میں کوئی خوفناک سانحہ رونما ہو سکتا ہے ۔ ایسے میں عالمی برادری خصوصاً تمام موثر جوہری قوتوں کا فریضہ ہے کہ اس ساری صورتحال پر گہری نظر رکھیں اور بھارت کے منفی عزائم کو بروقت لگام ڈالنے کیلئے سنجیدہ حکمت عملی اپنائیں۔