پاکستان کا ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے اخراج قابل تحسین ہے اور یہ بھارت کی عالمی سطح پر پروپیگنڈہ مہم کی زبردست ناکامی ہے اور بھارت کی جانب سے عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے اور سرمایہ کاری کے لئے غیر موزوں اور دہشت گرد ملک ثابت کئے جانے کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوجانا پاکستان کے لئے قابل فخر بات ہے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں‘ افواج پاکستان‘ دفاعی اداروں‘ ایف بی آر‘ ایس ای سی پی‘ اسٹیٹ بینک اور تمام کمرشل بینکوں ‘ مالیاتی اداروں اور اسٹاک مارکیٹ سمیت مالی معاملات دیکھنے والے اداروں کی کاوشوں سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دیئے گئے 34نکات پر مشتمل دو ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا گیا اور اے ٹی اے ٹی ایف ٹیم کو مکمل طور پر مطمئن کیا گیا۔ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت‘ مالیاتی اداروں میں دہشت گردی کی فنڈنگ کو روکنے کے نظام کی غیر موجودگی سمیت کئی خامیوں کی نشاندہی کرکے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا جس کے باعث پاکستان کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے خامیوں کو دور کرکے مالیاتی اداروں اور ان میں موجود نظام کو درست کرنے کا تحریری مطالبہ کیا گیا تو بھارت نے خوشی کے شادیانے بجائے اور دنیا پر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بھارت درست کہتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کیلئے بہترین ماحول بھی موجود ہے اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کرنا‘ خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے عالمی طور پر پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو ایف اے ٹی ایفگرے لسٹ کی وجہ سے سوچنے پر مجبور کیا گیا لیکن الحمدﷲ پاکستان نے بہترین اقدامات کرکے پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی بھارتی کوششوں اور خواہشات کو بری طرح ناکام کردیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت خود پاکستان سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہے اور پاکستان کے بارے میں تو اعلانیہ کہتا رہا ہے کہ ہم سی پیک منصوبے کو ہر صورت میں روکیں گے۔ بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے آئے روز پڑوسی ممالک سے سرحدی جھڑپیں کرتا رہا ہے اور اپنے تمام پڑوسی ممالک میں براہ راست دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے۔ مودی جب سے اقتدار میں آئے ہیں اس وقت سے اب تک بھارت میں سرکاری سرپرستی میںمذہب کی تبدیلی یا موت کا نعرہ لگانے والی تنظیمیں فعال ہیں اور اقلیتوں کے لئے زمین تنگ کردی گئی ہے۔ آئے روز بھارت میں اقلیتوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن اس کے متعلق بھارت سرکار ہمیشہ مجرمانہ خاموشی اختیار کرتی ہے۔بھارتی گجرات میں مسلمانوں کی کثیر آبادی کو زندہ جلاکر خواتین کی عصمت دری کی گئی اور یہ تمام بدترین دہشت گردی بھارت میں سرکاری سرپرستی میں کی گئی۔ان تمام معاملات کا حوالہ دیکر سابق وزیر داخلہ رحمان ملک مرحوم نے باقاعدہ ایف اے ٹی ایفکو خط لکھا اوربھارت کے خلاف سخت پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ رحمان ملک مرحوم کے خط کے جواب میں ایف اے ٹی ایف نے یہ کہہ کر بھارت کے خلاف کارروائی سے انکار کردیا تھا کہ بھارت کے خلاف کارروائی ہمارے چارٹر میں نہیں۔ اگر ایف اے ٹی ایف واقعی دنیا میں دہشت گردی کی امداد روکنے میں مخلص فورم ہوتا تو ان ثبوتوں اور واقعات سے تو بھارت کو ہمیشہ کیلئے بلیک لسٹ کردیا جاتا لیکن عالمی طور پر ہر معاملے میں دوہرے معیار ہیں ۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایف اے ٹی ایف‘ اقوام متحدہ‘ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی ادارے دراصل امریکہ ہی ہیں اور ان تمام اداروں اور فورمز پر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ امریکہ کی مرضی اور ڈکٹیشن پر ہوتا ہے۔
امریکہ کی ڈکٹیشن کیا ہے؟ یہی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے تحفظ اور مفادات کے مطابق دنیا بھر کے ہر فورم پر فیصلے مسلط کرائے جائیں۔ ایف اے ٹی ایفگرے لسٹ سے اخراج کے لئے پاکستان کو غیر معمولی محنت و اقدامات کرنے پڑے ہیں ورنہ بھارت اور اسرائیل کا مفاد تو اسی میں ہے کہ پاکستان کو عالمی دنیا میں تنہا کرکے معاشی پابندیوں کا شکار کیا جائے اور پہلے سے کمزور معیشت کو دیوالیہ تک پہنچا دیا جائے۔ ایف اے ٹی ایف اگر اخلاص ِ نیت سے دہشت گردی کی فنڈنگ کے سدباب کے مشن پر گامزن ہوتا تو اب تک کے اس کے اقدامات و اعلانات سے واضح ہوچکا ہوتا لیکن اس کا واحد مشن مسلم ممالک پر دہشت گردی کی مدد کا الزام لگاکر معاشی پابندیوں کا شکار کرنا ہے۔
بہرحال دنیا کو یہ بات ہر صورت سمجھنی ہوگی کہ پاکستان کے کوئی بھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں بلکہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق استعمال کرتا ہے اور عالمی طور پر تسلیم شدہ اور اقوام متحدہ کی 1948ء کی قرارداد پر عملدرآمد کرکے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کیلئے ہر فورم پر موثر آواز بلند کرتا ہے۔ عالمی اداروں اور فورمز کو مسئلہ کشمیر کیوں نظر نہیں آتا؟ اسی لئے کہ کشمیر میں مسلمانوں کو ہندوؤں سے آزادی درکار ہے۔ اگر یہی معاملہ اس کے برعکس ہوتا اور کہیں غیر مسلموں کو مسلم تسلط سے آزادی درکار ہوتی تو راتوں رات ہی اقوام متحدہ قرارداد بھی منظور کرتی اور اس پر فوری طور پر عملدرآمد کو یقینی بھی بنایا جاتا۔ جس طرح مشرقی تیمور کا معاملہ چند دنوں میں اقوام متحدہ نے حل کرایا کیونکہ وہاں غیر مسلموں کو مسلمانوں سے آزادی درکار تھی۔ کشمیر‘ فلسطین‘ عراق‘ شام‘ لیبیا اور افغانستان سمیت مسلم دنیا پر ہونے والے مظالم پر عالمی فورمز کی منافقانہ خاموشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ عالمی دنیا کو یہ بات باور ہونی چاہئے کہ دوہرے معیار کے تحت کئے گئے فیصلوں کے بعد دنیا میں امن کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔