مشرقی شعریات سے آگاہی کا شوق ہوا، چندسال پہلے مولانا جلال الدین رومی کی ”مثنوی معنوی “ پڑھنے کا موقع ملا ، مولانا کے ہاں علوم وفنون کے بہتے ہوئے دریاﺅں کی فراوانی سے فیض پایا، مشرقی دانش سے معانقہ ہوا، مولانا کوپڑھتے ہوئے ایک بات نے مجھے حیران کردیا۔مولانا کی مثنوی میں موجود بہت سی حکایات مَیں پہلے ہی اپنے گا?ں کے ان پڑھ لیکن جہاندیدہ بزرگوں سے سن چکا تھا۔سچ کہیئے تو رومی کی مثنوی اور سعدی کی گلستان و بوستان کی قرات ہمارے لوک وسیب کا حصہ تھی۔ فارسی کے مغل دربار سے اخراج کے بعد انگریزی کا چلن شروع ہوا۔اس زمانے میں کوئی ٹامی اگر انگریزی کے چندلفظ بولنا بھی سیکھ لیتا تو برصغیر میں اسے” عقلِ ک±ل“ بنتے دیرنہ لگتی تھی۔ انھی دنوں میں ہمارے ہاں” پڑھو فارسی بیچو تیل“ کاطنزیہ محاورہ عام ہوا،آج اس محاورے کی نفی کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ ایران دنیامیں تیل کے بڑے ذخائر رکھنے کے باوجود پابندیوں کا شکارہے۔انھی دنوں کھوئے ہوﺅں کی جستجو میں ہم چنددوستوں کے ذہن میں دورہ آزفا (آموزش ِ زبانِ فارسی ) کرنے کاخیال پیداہوا،کتابیں پڑھنا بھی شروع کیں لیکن قسمت میں محرومی لکھی تھی۔
مجھے ایران اور پاکستان کے مرکز تحقیقات فارسی کا رسالہ ”دانش “ باقاعدگی سے ملتا تھا۔اس میں تنقیدی وتحقیقی مقالات کے ساتھ ساتھ جدید فارسی شاعری بھی پڑھنے کا موقع بھی ملتا تھا۔اسی رسالے کے ذریعے میراپہلا تعارف ایران میں مقیم نوجوان پاکستانی شاعر احمد شہریار کی فارسی غزل سے ہوا۔اسی روز سے ان کی ”یک بوسہ دواشک “ بات پرمیرا ایمان پختہ ہوگیا۔احمدشہریار کی اردو اور فارسی شاعری پاک وہند کے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوتی رہتی ہے۔
ایک نجی محفل میں انھیں ایرانی انقلاب کے سپریم کمانڈر آیت اللہ سیدعلی خامنہ ای کے سامنے حلقہ نشیں شاعروں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھا۔وہ مجلس میں اپنی فارسی غزل سنارہے تھے۔سچ پوچھیں تو یہ منظر دیکھ کر میرا سر فخر سے بلندہو گیا۔اردو ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ان کی شاعری معاصرآوازوں سے منفرد اورجدا محسوس ہوئی۔چنداشعار دیکھیے:
صف بہ صف بیٹھے ہوﺅں میں سب سے بہتر کون ہے
اجنبی حیران ہیں ان میں پیمبر کو ن ہے
کمانِ وقت سے نکلا تھا ایک تیرکبھی
جہاں میں سینہ سپر تھا ،ادھر نہیں آیا
وہ مری خامشی نہیں سنتا
مجھ سے آوازدی نہیں جاتی
ندامتیں اسے آوارہ کرگئیں احمد
وہ قتل گاہ سے نکلا تو گھرنہیں آیا
احمدشہریار سے جب بھی بات ہوئی ،ان کے اندازِ گفتگو میں ایک خاص قسم کی شائستگی دیکھی۔فارسی کے ایک شعر کا مفہوم ہے :” وہ علم،علم نہیں؛جوتجھے تجھ سے چھین نہ لے“۔
فارسی کے اساتذہ کے بیان کردہ مفہوم سے جب میری تشفی نہ ہوسکی توہمارے قصبے میں حقے کے پائپ پر طلا کاری کرنے والے مرحوم غلام علی نے اس شعر کا عقدہ کھولا۔اس نے بتایا کہ ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے لوہارکی اپنی ذات کہیں گ±م ہوجاتی ہے،اور اس ماحول میں وہ سرسے لے کر پاﺅں تک لوہے سے ڈھلا ڈھلایا ایک وجود لگتا ہے۔اسی طرح جو علم انسان کے پاس ہے ،وہ اس کی ذات پر اس طرح حاوی ہو نا چاہیے کہ اس کی اپنی ذات کی نفی ہوجائے اور وہ سرتاپا اپنے رنگ میں رنگا جائے۔احمد شہر یار گفتاراور کردار کے لحاظ سے تہذیب وشائستگی کا پیکر ہے۔ احمد شہر یار کا تعلق بنیادی طور پر ہزارہ برادری سے ہے،ان کا لڑکپن کوئٹہ میں گزرا۔اب وہ ایک مدت سے ایران میں مقیم ہیں ،ان کی اہلیہ بھی ایک ایرانی خاتون ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندستان کے قدیم مہاراجاﺅں نے ایران کے بادشاہان سے گہرے روابط تھے،دونوں ملکوں کے بادشاہوں کے ہاں دونوں زبانوں کے ماہرین حا ضر رہتے تھے۔اسی زمانے میں ”اوستا “ کے ہندی اورویدوں کے فارسی میں تراجم ہوئے۔ہزاروں سال پہلے ”کلیلہ دمنہ“کی داستان برصغیر سے ترجمہ ہوکرایران اور وہاں سے عربی دنیا تک پہنچی تھی۔اس نوعیت کے علمی روابط تہذیبوں کوایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔احمدشہر یار کی اردو اورفارسی ، دونوں زبانوں پر دسترس ہے، انھوں نے بڑی مشاقی کے ساتھ دونوں ملکوں کی اہم کتابوں کو ایک دوسرے کی زبان میں منتقل کیاہے،ظاہرہے کہ یہ انکی تفصیل بیان کرنے کامحل نہیں۔حال ہی میں انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ”میرابھائی“ کااردو سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے،احمدشہریار کی ترجمہ شدہ کتابوں کا تہران یونیورسٹی کا شعبہ اردو بھی معترف ہے۔ احمدکے شعر ی مجموعے ”اقلیم“، ”تماشا“ (اردو) اور”پیرہن گم کردہ ایم“(فارسی)ہمارے شعری سرمائے کا اہم حصہ ہیں۔ ایسے لوگ دوسرے ملکوں میں ہمارے وطن پاکستان کے حقیقی سفیر ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ ہمارے سفارت خانوں کے اہل کاروں کی طرح مہنگے بھی نہیں پڑتے۔ چندروز پہلے اوکاڑا میں مقیم معروف شاعر، یار طرحدار،کاشف مجید نے بتایا کہ احمدشہریار ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔گورنمنٹ کالج اوکاڑا کے شعبہ اردو کے زیرتحت انکے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیاگیا ہے،آپ کو مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی دعوت ہے، یہ دعوت ملکِ بلقیس سے ہد ہد کی زبانی آنے والے کسی مڑدہ جانفزا سے کم نہ تھی۔ بس ”کچے دھاگے سے بندھے چلے آئے“والا معاملہ تھا۔میں اور نورِ نظرمہر علی اوکاڑا میں کاشف مجیدکے گھر پہنچے،یہ مکان انھیں سرکارنے الاٹ کیاہے، میں نے اس سے پہلے کسی سرکاری گھرکو اس قدر آراستہ نہیں دیکھا۔یہ کاشف مجیدکی اہلیہ اور ہماری بہن پروفیسر یاسمین کاشف کے ذوقِ جمال کا نتیجہ ہے۔ورنہ کاشف میاں توصرف ایک شاعر ہیں۔اوکاڑا اردو کے بڑے شاعر ظفراقبال کا شہر ہے، اسکی علمی بنیادوں میں اقبال صلاح الدین اور ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کی محنت شامل ہے،اس لیے یہاں کا ماحول ایک خاص قسم کی خوشبو میں رچابسا ہوا ہے۔ تقریب کی صدارت بزرگ شاعر پروفیسر رانا غلام محی الدین نے کی۔مہمانان اعزاز معروف شعرا مسعوداحمد اور رضااللہ حیدر صاحبان تھے۔پروفیسرسخنورنجمی،پروفیسرمحموداحمد، ڈاکٹر حسن رضااقبالی، کاشف مجیداورراقم نے احمدشہر یار کی شخصیت اور شاعری پر گفتگو کی۔تقریب کے آخرمیں احمد شہر یار سے جی کھول کر ان کا کلام سنا گیا۔دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی شاعر، ادیب،مصور،خطاط، فن کار ، مہندس اورماہرین ِ طب وہاں ہمارے ملک کاچہرہ ہیں، احمدشہریاربھی ان میں سے ایک ہیں۔