منشیات اور قوم کامستقبل

ہولناکی دیکھیں تو نقصان دہ اثرات ”پانامہ“ سے بھی زیادہ اورجانی نقصانات کے معاملہ میں ”کرونا“ جیسی وباءبھی حقیر۔” پاکستانی پود“ ارباب حل و عقد کی غفلت سے دھنس چکی ہے” منشیات“ کا استعمال کتنا بڑا ناسور ہے۔ (2جولائی 2018 ”منشیات اور نسل نو“) لکھا تھا کہ گزشتہ دس سالوں میں ”80ہزار“ افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے لیکن اس سے چار گنا زیادہ تعداد میں پاکستان میں انسانی جانوں کا اتلاف منشیات کے ہاتھوں ہوا۔ تب معروف امریکی جریدہ ”فارن پالیسی“ کی رپورٹ کے مطابق 25ہزار سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اب 2023اختتام پر ہے۔ خود ہی اندازہ کر لیں نشہ کے عادی افراد کی تعداد کس گراف کو چھو چکی ہوگی۔ آئے دن لیک ہوتی وڈیوز۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کے مابین مارکٹائی کے بڑھتے واقعات تعلیمی سمجھ بوجھ کی صلاحیتوں کا گرتا ہوا معیار۔ پچھلے ماہ اور جاری مہینہ میں انسداد منشیات پر مامور ادارے” اینٹی نار کوٹکس “نے کافی تعداد میں پورے ملک میں کاروائیاں کیں۔ منشیات کی کافی بڑی کھیپ پکڑی۔ پورے ملک میں بھرپور کاروائیاں جاری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گھروں سے تعلیمی اداروں کو لپیٹ میں لیے ہوئے اتنی بڑی تباہی کو ختم کرنے میں کیا صرف ایک ادارہ اتنا کارگر ہو سکتا ہے ؟؟ یقینا ادارے کی کاوشیں بے پناہ ہیں مگر عفریت کا سائز بہت بڑا ہے جڑ سے ا±تار پھینکنے میں والدین اور اساتذہ کا کردار اشد اہم ہے۔ 
کسقدر افسوس۔ دکھ کی بات ہے کہ نشہ کے عادی افراد کی عمریں ”13سے 25سال“ کے درمیان ہیں۔ نشہ کے عادی افراد کی تعداد ”2018”میں بقول اقوام متحدہ” 76لاکھ“ تھی۔ پریشانی والی بات یہ ہے کہ یہ تعداد 24سال سے کم عمر افراد کی تھی اور اب ؟ ہیئروئن ا ور شراب کا استعمال پانی سے زیادہ ہوتا ہے اب تو لوگ اعلانیہ کرتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں کرتے یہانتک س±نا ہے کہ اشرافیہ (پارٹیوں میں تو عام تھا) کی شادیوں میں بڑے اہتمام سے ”بارز“ آراستہ کی جاتی ہیں۔ دہائی قبل سگریٹ کی ب±و سے والدین پریشان ہو جاتے تھے۔ بچوں سے باقاعدہ پوچھ کچھ کی جاتی تھی تب تعلیمی اداروں میں ”اساتذہ“ واقعی ”اساتذہ“ کے مرتبہ پر فائزتھے اب تو ؟؟ ”گھر “ بچوں کی ابتدائی اور کلیدی درسگاہ تھی مگر اب والدین کے پاس وقت بھی نہیں۔ کچھ ہوس کچھ شہرت کی طمع نے وقت جیسی انمول چیز کو والدین سے چھین لیا۔ کمیٹی پارٹی۔ سینما پارٹی۔ سیاسی پارٹی۔ سچ یہ ہے کہ تمام پارٹیوں نے مل کر اِس قوم کی درگت بنا ڈالی۔ تباہ کر دیا معاش کو۔ معاشرت کو۔ سیاست کو۔ کچھ بھی نہ باقی رہنے دیا نہ اخلاقیات نہ تربیت۔ نہ زبان کا احترام نہ دل کا سکون۔ دماغوں کو جلتے بارود میں بدل ڈالا۔ 
قارئین سب رونا دھونا ایک طرف۔ حل بھی تو نکالنا ہے حل یہی ہے کہ والدین۔ اساتذہ اپنے فرائض کی نوعیت کے مطابق کردار ادا کریں۔ انسداد منشیات کے اداروں کے چاہیے کہ وہ باقاعدہ عملی طور پر اقدامات ا±ٹھائیں۔ تمام کالجز۔ اسکولز۔ یونیورسٹیز میں اچانک ”ڈرگ ٹیسٹ“ ہو۔ پولیس چھاپے کی طرز کا نہیں کہ پہلے سے مخبری۔ اگر ایسا ہو تو اطلاع دینے والے کو سر عام ا±لٹا لٹکا دیں۔ کِسی قسم کی رعایت کے ہم اب متحمل نہیں ہو سکتے۔ آج کا بچہ ہمارا کل ہے۔ (2) تمام اداروں میں موبائل لیجانا مکمل بند کر دیں (3) بچوں کے بیگز کی داخلی گیٹ پر مکمل تلاشی ہو۔ کِسی قسم کی سستی۔ غفلت نہ کی جائے۔ والدین کے پاس ہر کلاس کے تمام مضامین اساتذہ کے فون نمبرز ہوں۔ ہے تو بہت مشکل مگر کرنا تو پڑے گا کیونکہ معاملہ” قوم کے مستقبل کا ہے“۔تمام تعلیمی اداروں میں کھانے کے ڈھابے۔ کینٹین وغیرہ بند کر دیں ایک تو سخت معاشی بوجھ کم ہوگا دوسرے بچوں کو فطری کھانا کی عادت پڑیگی۔ حقیقت ہے کہ ہر ادارے میں ”کینٹین “ سب سے بڑی سہولت کار کے طور پر نظر آئی۔ SEAL PACK پانی کی بوتل سکول کی ذمہ داری ہو جو کہ واقعی ہے۔ بھاری بھر کم فیسوں میں کم از کم پانی تو مفت فراہم کریں۔ دربارہ لکھتی ہوں ”بند بوتل“ کیونکہ ”کولرز“ کا معاملہ بھی اتنا شفاف نہیں رہے گا۔ اس لئے کہ تقریبا ً ادارہ کا سٹاف ملوث ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ”مخلوط تعلیم“ پر حکومت پابندی لگا دے۔ ہمارے 99فیصد مسائل حل جائیں گے۔ معاشرہ جس طور تباہی کی ڈگر چل رہا ہے اِسی واحد طریقہ سے روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔ 
اقوام متحدہ کے ادارے برائے منشیات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ”76لاکھ“ سے زیادہ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اس میں 78 فیصد مردوں کی ہے جبکہ 22 فیصد لڑکیاں ہیں۔ منشیات کی لت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال ” 40 ہزار“ کا اضافہ ہو رہا ہے۔انتہائی تشویشناک اعداد و شمار ہیں۔ کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہیروئن۔ کوکین اور آئس کا نشہ شامل ہے۔ دنیا بھر میں ہیروئن۔ کوکین۔ چرس۔ بھنگ۔ آئس۔ کرسٹل میتھ اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال سے سالانہ کئی لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔سب سے زیادہ بد قسمتی علاج کے لیے سرکاری سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں ا±ن کے بارے میں لوگ شکایت ہی کرتے ہیں۔ اگر ایسے میں کوئی بد قسمتی سے منشیات کی لت میں پڑ جائے تو چاہتے ہوئے بھی اس سے نکلنا آسان نہیں۔ ایک بہت بڑی رکاوٹ تو نشہ کرنے والوں کے بارے میں معاشرے کا رویہ اور بحالی مراکز میں کیا جانے والا سلوک بھی ہے۔پاکستان میں انسداد منشیات فورس کے مطابق ہیروئن مقبول ترین نشہ ہے اور 77فیصد منشیات کے عادی افراد اس کی لت میں مبتلا ہیں۔ منشیات کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کا آغاز چرس سے ہوتا جو سستی ہے اور با آسانی دستیاب بھی۔ گزشتہ سال شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 96 فیصد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات کی ابتدا اپنے دوستوں اور سماجی طور پر مقبول لڑکے اور لڑکیوں کے گروپ میں داخل ہونے کے لیے کرتے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے ہر چیز کی طرح پیرنٹنگ کو بھی ساتھ چلنا ہوگا۔ ساتھ چلنے کا مطلب ہے کہ ان تمام موضوعات پر بات کی جائے جس کو اب تک پاکستان میں ممنوع موضوع تصور کیا جاتا رہا۔

ای پیپر دی نیشن