نواز شریف کی ملک واپسی پر سیاست کے بدلتے رنگ

غم زندگی میں اور بھی بہت ہیں مگر وہ نہ بھلاسکا جو اپنوں نے دیئے ہیں۔
میاں نواز شریف لندن سے براستہ دبئی پاکستان واپس آ چکے ہیں۔ جیسے ہی وہ مملکتِ خدادِاد کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کے چہرے سے خوشی عیاں تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ یہاں پر مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے۔
یوں مسکرائے، جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا 
(اصغر گونڈوی)
 دبئی ائیرپورٹ پر جب میاں نواز شریف سے صحافیوں نے سوالات کئے تو انہوں نے کہا میں اپنا معاملہ اللہ پاک پر چھوڑتا ہوں۔دبئی ائیر پورٹ پرمیاں نواز شریف سے کئے گئے سوالات میں انہوں نے کسی بھی ایسے سوال کا جواب نہیں دیا جس سے کسی پر تنقید ہو۔ دبئی ائیر پورٹ پرمیا ں نواز شریف کے ساتھ ا±ن کے قریبی دوست عرفان صدیقی صاحب بھی ساتھ تھے۔
میاں نواز شریف کا جہاز پہلے اسلام آباد آیا جہاں ان کی قانونی ٹیم نے ا±ن سے ملاقات کی جس میں اعظم نذیر تارڑ اور ا±ن کے ساتھی شامل تھے۔پہلے بائیو میٹرک کروایا گیا اور اسلام آباد ائیر پورٹ پر پرو ٹوکول بھی دیا گیا۔ اسلام آباد ائیر پورٹ سے میاں نواز شریف کے جہاز نے لاہور کی طرف رخ کیا جہا ں دو دِن سے لوگوں کا ایک جم غفیر ا±ن کا انتظار کر رہا تھا اور جس طرح پاکستان کے میڈیا نے میاں نواز شریف کی آمد کو لمحہ بہ لمحہ دکھایا ان مناظر سے پارٹی میں ایک جان پڑتی نظر آرہی تھی۔ مسلم لیگ کا سپورٹر جو کافی عرصے سے مایوسی کا شکار تھا میاں نواز شریف کی آمد ان کے لئے ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکاہے۔جیسے ہی میاں نواز شریف کا ہیلی کاپٹر مینار پاکستان کے اوپر سے گزرا تو وہاں پر موجود لوگوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ مینار پاکستان مسلم لیگ ن کے نعروں سے گھونج ا±ٹھا۔ 
 یہاں اس سے پہلے جو جلسے بھی منعقد کئے جاتے رہے ہیں ا±ن کی بھی بات کروں گا۔ 2012ئ میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اپنا عروج مینار پاکستان سے شروع کیا بس پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ عمران خان نے ا±س کے بعد بھی جلسے کئے۔جلسوں میں لوگوں کے لئے جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن اب جب میاں نواز شریف نے یہ جلسہ مینار پاکستان میں کیا یہ اپنی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ تھا۔ پورے پاکستان سے لوگوں کی بڑی تعداد آئی جس سے جگہ کم پڑ گئی۔آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو میاں نواز شریف کی آمد سے حوصلہ ملے گا۔ اور پارٹی میں بھی جان نظر آئے گی۔
میاں نواز شریف جیسے ہی جلسہ گاہ پہنچے وہاں موجود شرکا اور سٹیج پر موجود کارکنان سب نے پ±ر تپاک استقبال کیا۔مریم نواز شریف اپنے والد سے لپٹ کر جذباتی ہوگئیں جس سے میاں نواز شریف بھی جذباتی ہوگئے۔
سکونِ دِل کے لئے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر تو ملے، پھر انہیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں،آپ مشورہ دیجیے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
 جیسے ہی میاں نواز شریف نے جلسے سے خطاب شروع کیا ایک لمحے یوں محسوس ہوا کہ پاکستانی سیاست کا ایک مدبر خطاب کر رہا ہے۔میاں نواز شریف نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کیا۔ ساتھ اپنے اندر کے غم کا بھی۔ جس کے بارے میں ا±ن کا کہنا ہے کہ مجھے بھلانا مشکل ہے۔میاں نواز شریف نے جس شائستگی سے الفاظ کا استعمال کیا اور امن و آشتی کا پیغام دیا۔کسی پر بھی تنقید کے تیر نچھاور نہیں کئے یہ اپنی مثال آپ تھے۔ مسلم لیگ ن نے مینار پاکستان پر ایک تاریخی جلسہ کرکے اپنی الیکشن کیمپین کا بھی آغاز کردیا ہے۔ 
 میاں نواز شریف کی پاکستان آمد سے پہلے سعودی عرب کا دورہ اور وہاں پر جس قسم کا ا±ن کو پروٹوکول دیا گیا اور جو ا±ن کی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور پھر دبئی میں غیر معمولی پروٹوکول۔ ا±س سے تویہ نظر آرہا ہے کہ میاں نواز شریف حکومت کے ایوانوں سے زیادہ دور نہیں ہیں لیکن ابھی بھی میاں نواز شریف کو کچھ قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ اور محسوس تو یہ ہو رہا ہے کہ نیب اب میاں نواز شریف کے کیسز کے سامنے رکاوٹ نہیں بنے گا۔اور پھر میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ سے بھی کسی فیصلے کی امید ہے۔ یہ بات آنے والا وقت بتائے گا۔ حکومت تک پہنچنے کے لئے الیکشن میں کامیابی بھی ضروی ہے۔
میاں نواز شریف خوش قسمت انسان ہیں۔ ا±ن پر بہت سا مشکل وقت آیا ا±س مشکل سے نکل کر وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر آئے۔
1990 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ا±س وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے ختم کی اور ا± س کے بعد ملک میں نئے الیکشن کا انعقاد ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد نے حصہ لیا اسلامی جمہوری اتحاد کی قیادت میاں نواز شریف نے کی۔24 اکتوبر 1990 میں کرائے گئے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد نے قومی اسمبلی میں 105 نشستیں حاصل کیں۔پی ڈی اے نے صرف 45 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔دیگر جماعتوں کی 54 نشستیں لیں جن میں ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی اور آزاد امیدوار شامل تھے۔
وزیر اعظم کے انتخاب میں میاں نواز شریف نے 192 میں سے 153 ووٹ حاصل کئے۔ اوراس طرح وہ پہلی بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد میاں نواز شریف کے ا±س وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان سے مختلف ایشوز پر اختلافات شروع ہوگئے۔بالآ خر میاں نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ایوان صدر کو سازشوں کی آماج گاہ قرار دے دیااوراپنی تقریر میں جذباتی ہوگئے اور ساتھ کہا میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔بس پھر ا±س وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے 58 ٹو۔بی کے تحت اسمبلی توڑ دی۔میاں نواز شریف نے صدر اسحاق خان کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور پھر سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی اسمبلی کو بحال کردیالیکن ا±س کے بعد اسٹبلشمنٹ کی مداخلت پر میاں نواز شریف اور صدر مملکت غلام اسحاق خان کو استعفٰی دینا پڑا اور ملک ایک بار پھر نئے انتخابات کی طرف چلا گیا۔بات اب نکل گئی ہے میاں نواز شریف کے عروج و زوال کی طرف۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف نے محترمہ کو ایک دِن کے لئے بھی چین سے حکومت نہ کرنے دی اور بہت ٹف ٹائم دیا۔لیکن بالآخر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ان کے اپنے ہی بنائے ہوئے صدر سردار فاروق خان لغاری نے ختم کردی۔ محترمہ کی حکومت ختم کرنے سے دو دِن پہلے ان سے ضیاالدین مرحوم اور حامد میر نے ملاقات کی۔اس ملاقات میں ضیا الدین صاحب نے محترمہ سے کہا اس لڑکے کے پاس ایک خبر ہے کہ آپ کے صدر فاروق لغاری آپ کی حکومت ختم کرنے والے ہیں جس کے جواب میں محترمہ نے کہا فاروق بھائی یہ کبھی نہیں کریں گے اور کوئی بلوچ اپنی بہن کے ساتھ ایسا نہیں کرتا۔ آخر کار حامد میر کی خبر درست ثابت ہوئی اور 5 نومبر 1996کو صدر مملکت سردار فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی۔ یہ واقعہ سنیئر صحافی سہیل وڑائچ صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔میاں نواز شریف کے عروج و زوال پر بات ایک کالم میں مکمل نہیں ہو سکتی۔بقیہ انشائ اللہ اگلے کالم میں۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن