صدر مملکت عارف علوی نے اپنے ایک انٹرویو میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اپنا لیڈر قرار دے کر ایک بار پھر اپنے منصب کی توہین کی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر وہ ایسے بیانات اور انٹرویوز دے چکے ہیں جن سے ایسا لگتا ہے کہ وہ وفاق کی علامت کے طور پر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ترجمان کی حیثیت سے بات کررہے ہیں۔ حالیہ انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایوان صدر میں نہ ہوتا تو آج میں بھی جیل میں ہوتا۔ عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یقین نہیں کہ الیکشن جنوری کے آخر میں ہو جائیں گے۔ مارچ تک الیکشن نہیں ہوں گے۔ حج پر نہ گیا ہوتا تو الیکشن ایکٹ 2017 ءمیں ترمیم پر دستخط نہ کرتا۔ الیکشن ایکٹ 2017ءکی شق 57 ون میں ترمیم آئین کے خلاف ہے۔ صدر مملکت نے مزید کہا کہ پارلیمانی نظام میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ حکومت مدت پوری نہ کر پائے۔ عارف علوی کو بیانات اور انٹرویوز وغیرہ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کوئی سیاسی رہنما یا ایک عام آدمی نہیں بلکہ ریاست کے سربراہ ہیں۔ اگر انھیں پی ٹی آئی اپنی وابستگی بہت عزیز ہے یا وہ ایک سیاسی رہنما کے طور پر خود کو منوانا چاہتے ہیں تو وہ صدر مملکت کے منصب سے مستعفی ہو کر اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں لیکن صدر کی مسند پر بیٹھ کر یہ سب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ سب لوگ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کر رہے ہیں اور ملک کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوں لیکن یہ تب ممکن ہے جب صدر مملکت سمیت سب افراد اپنے دائر? کار کے اندر رہیں اور آئین میں بیان کردہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔