ہمارے ہم سن ممالک اور ہم 

Oct 27, 2024

اللہ دتہ نجمی

تحریر:- اللہ دتہ نجمی 

1947ء میں پاکستان، بھارت، برما اور سری لنکا نے برطانیہ کی غلامی کا طوق اتار کر آزادی کا سفر شروع کیا. 1948ءمیں شمالی و جنوبی کوریا، ویت نام، لبنان اور شام کو بھی آزاد حیثیت میں جینے کا حق نصیب ہوا. اسرائیل کسی بھی ملک کے تسلط سے آزاد تو نہیں ہوا مگر اس نے 1948ء میں برطانیہ کے ہاتھوں اپنا ناجائز جنم لینے میں سرخروئی ضرور حاصل کی. شمالی و جنوبی کوریا کو جاپان سے جبکہ ویت نام، لبنان اور شام کو فرانس کے پنجہءجبر و استبداد سے چھٹکارا ملا. اِن دس ہم سن ممالک نے آزادی کے وقت جمہوری نظامِ حکومت اختیار کیا مگر صرف دو ممالک، بھارت اور اسرائیل مستقل بنیادوں پر جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھے رہنے میں کامیاب رہ سکے اور باقی آٹھ ممالک حَوادِثِ زمانہ اور حالات کے جبر کا شکار ہو کر مختلف غیر جمہوری راہوں پر بھٹکتے ریے. کبھی فوجی راج نافذ العمل رہا تو کبھی آمریت مسلط رہی. بعض ممالک شدید خانہ جنگی کی لپیٹ اور غیر ملکی مداخلت کی زد میں بھی رہے. حتیٰ کہ لبنان اور شام طویل عرصے سے اپنے ساتھ معرض وجود میں آنے والے ملک اسرائیل کی ننگی جارحیت کا شکار بھی رہے بلکہ اب بھی ہیں. 
اب ہم اِن ممالک کے آزادی کے بعد سے لے کر اب تک حالات کے بارے میں مختصراً جائزہ لیتے ہیں. برما میں 1948ء سے لے کر 1962ء تک جمہوریت رہی. 1962ءمیں جنرل نی ون نے جمہوریت کو چلتا کیا اور 'سوشلسٹ ملٹری رجیم' کے نام سے 1974ء تک حکومت کی. 1974ء سے 1988ءتک کے زمانے میں جنرل نی ون نے نیا آئین مرتب کرکے یک پارٹی سسٹم کے تحت 'برما سوشلسٹ پروگرام پارٹی' کے نام سے ملکی انتظام چلایا. 2011ءسے 2021ءکے دوران ملک پھر فوجی حکمرانی میں دو مختلف ناموں سے محوِ سفر رہا.2011ءسے 2021ءتک اشرافیہ کی حکومت رہی. 2021ءسے لے کر اب تک ملک فوج کی زیرِ نگرانی چل رہا ہے. ملک میں فوجی بالادستی قائم رہنے، معیشت کی زبوں حالی، مذہبی فسادات کا برپا ہونا اور رشوت ستانی کی بھرمار کی وجہ سے برما بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہے. 
سری لنکا میں 1948ء سے لے کر 1962ءتک جمہوریت رہی. 1962ء سے 1978ءتک ملک آمریت کے بوجھ تلے دبا رہا. 1983ء سے 2009ءتک تامل لبریشن ٹائیگرز کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں رہا. سری لنکا کی حکومت کی درخواست پر بھارتی بھی فوج تامل باغیوں کی سرکوبی کے لئے وہاں تعینات رہی. 2015 میں ملک میں جمہوری اصلاحات نافذ ہوئیں. 2022ء سے لے کر اب تک ملک شدید مالی بحران میں مبتلا ہے. 
1954ء میں جینوا معاہدے کے نتیجے میں 'ویت نام کیمونسٹ شمالی کوریا' اور 'اینٹی کیمونسٹ شمالی کوریا' میں منقسم ہوا. 1955ء سے 1975ءتک دونوں میں لڑائی جاری رہی. 1976ءمیں دونوں 'سوشلسٹ ریپبلک آف ویتنام' کے نام پر یکجا ہو گئے. 1986ءمیں وہاں معاشی اصلاحات نافذ ہوئیں اور 1992ءمیں ملک کو نیا آئین دیا گیا. تا حال ویتنامی شہریوں کو محدود آزادی میسر ہے. میڈیا پابندیوں کا شکار ہے. جلسے جلوسوں اور تقاریر پر بھی قدغنیں عائد ہیں. گرفتاریاں، سزائیں اور ریاستی جبر و استبداد اور تشدد کا چلن عام ہے. 
شمالی کوریا میں 1948ءمیں ہی کم II سنگ نے آمر کی حیثیت سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی. یہی سسٹم 1894ء میں کم جانگ کو منتقل ہوا. 2011ءتک کم جانگ نے ملک پر اپنا مکمل انتظامی کنٹرول حاصل کر لیا. شمالی کوریا میں یک جماعتی نظام قائم ہے ..... جنوبی کوریا میں 1948ءسے لے کر 1950ءتک جمہوریت رہی. 1950ء کے بعد حالات مخدوش رہے. 1960 میں جنرل پارک چنگ نے حکومت کا تختہ الٹ دیا. انہوں نے تقریباً سترہ سال حکومت کی. ان کے قتل کے بعد چن ڈو ہوان ان کے جانشین بنے. 1987ءمیں جمہوری اصلاحات نافذ کی گئیں. صدارت کے لئے بلاواسطہ طریقہءانتخاب رائج کیا گیا. چنانچہ 1993ء میں 'کم ہونگے سام' پہلے سویلین صدر منتخب ہوئے. ملک میں صاف شفاف انتخابات منعقد ہوتے ہیں، عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے، میڈیا اور سول سوسائٹی متحرک ہیں اور ملکی معیشت مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے. 
لبنان اور شام اسرائیلی جارحیت اور بڑی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے بد امنی اور خلفشار کا شکار رہے ہیں. پاکستان، بھارت اور اسرائیل کے حالات پر کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں. یہ ہر کسی کو ازبر ہو چکے ہیں. 
اب ذرا اِن دس ممالک کی "اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ" کی 2022ء کی رپورٹ کے حوالے سے ڈیموکریسی انڈیکس ریٹننگ اور درجہ بندی کی بات ہو جائے!! جنوبی کوریا انڈیکس ریٹننگ اور درجہ بندی میں 0.883 اور 20 پر، اسرائیل 0.793 اور 23 پر، بھارت 0.564 اور 85 پر، برما 0.542 اور 91 پر، سری لنکا 0.54 اور 93 پر، لبنان 0.472 اور 106 پر، پاکستان 0.365 اور 123 پر، ویت نام 0.254 اور 145 پر، شام 0.143 اور 167 پر اور شمالی کوریا 0.029 اور 175 پر ظاہر کیا گیا ہے. یہ اعدادوشمار جمہوری اقدار کی پاسداری، انتخابی عمل کی شفافیت، حکومت کی کارکردگی، عوام کی سیاسی عمل میں شمولیت اور شخصی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھ کر تیار کی گئی ہے. 
 اِن دس ممالک میں سے چار ممالک، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا ایٹمی قوت کے حامل ہیں. اسرائیل کی دیگر ہمسایہ ممالک کے علاوہ اپنے ہم عمر یعنی لبنان اور شام سے نہ صرف تعلقات کشیدہ رہے بلکہ جنگیں بھی ہوئیں. شام کے بہت سے علاقوں پر اسرائیل اب بھی قابض ہے. بھارت اور پاکستان برطانیہ سے ایک ہی دن آزاد ہوئے. ہمسایہ ممالک یونے کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین دو بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں. دوسری جانب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلی دو دہائیوں میں پاکستان کے معاشی حالات جنوبی کوریا اور بھارت سے بہتر تھے. فی کس آمدنی بھی ان دونوں ملکوں سے زیادہ ہوتی تھی. اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی کوریا نے معاشی ترقی کے ابتدائی ماڈل پاکستان سے حاصل کئے تھے. اللہ کی شان کہ اس وقت جمہوریت کا حامل جنوبی کوریا ان دس ممالک میں سر فہرست جبکہ آمریت زدہ شمالی کوریا آخری نمبر پر اور پاکستان ساتویں نمبر پر ہے. اسرائیل دوسرے اور بھارت تیسرے نمبر پر exist کرتا ہے. کیا اِس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ملک آمریت کی بجائے حقیقی جمہوریت کی بدولت ہی ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے اور عالمی برادری، عالمی اداروں اور عوام الناس کی نظروں میں اچھی شہرت، عزت اور ساکھ سے لطف اندوز ہوتا ہے. 
برطانیہ کے ایک سابق وزیراعظم اور جنگ عظیم دوم کے ہیرو ونسٹن چرچل کا قول ہے، "جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے، لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں"۔ اِس قول کو آج تک جھٹلایا نہیں جا سکا. کیا یہ قول کبھی پاکستانی زعیموں کو کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتا ہوگا ؟؟

مزیدخبریں