بختیار علی سیال ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔

Oct 27, 2024

بختیار علی سیال

قحط القاری
اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو انھیں علم سکھایا۔جو زبانی تھا۔بعد میں انسان نے اپنے علم کی بنیاد پر دنیا اور کائنات کے دوسرے پوشیدہ پہلوو¿ں پر غور و فکر اور ان کا علم جاننا شروع کیا اور اپنے حافظہ کی کچھ چیزوں اور اپنی یاد داشتوں اور تجربات کو محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔جو لکیروں،نشانات، تصاویر اور علامات سے شروع ہوا۔یہ زمین،پتھروں اور دیگر اشیاءپر بنائے یاکندہ کیے جاتے تھے۔بعد میں تصویر کشی کا استعمال شروع ہوا جو باقاعدہ ایک فن بن گیا اور واقعات و افکار کو تصویری شکل میں محفوظ کیا جانے لگا۔گویا اس طرح سے ایک تصویر ی رسم الخط وجود میں آگیا۔جو پتھر اور مٹی کی تختیوں پر تحریر کیا جاتا تھا۔ان تختیوں کو آگ میں پکایا جاتا تھا تاکہ ان کی عمر بڑھ جائے۔بعد میں اس مقصد کیلئے چمڑا اور دھات بھی استعمال ہونے لگی۔اس طرح کے نمونے مصر،بھارت ،چین اورجنوبی امریکہ کی قدیم غاروں اورچٹانوں میں دستیاب ہوئے ہیں۔اس سے ان لوگوں کا مقصد اپنے کارناموں کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنا تھا۔بعض قدیم ادوار میں لکھنے پڑھنے کا حق صرف اعلٰی اور مخصوص طبقے کو حاصل تھا۔مصر میں پیپرس کی ایجاد سے تحریریں پیپرس پر رقم ہونے لگیں۔دوسرے لوگوں نے ان محفوظ شدہ نشانات،تصاویر یا تحریرات سے اپنے علم میں اضافہ کیا۔گویا یہاں سے کتب بینی کا آغاز ہوا اور قاری کا وجود قائم ہوا۔وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں انسانی تمدن نے ترقی کی، توں توں تجربات اور علم میں ترقی اور جدت کے باعث کتب نویسی اور کتب بینی نے ارتقائی منازل طے کیں۔کاغذ کی ایجاد کے بعد کھال،چھال،پتے،پتھر کی سلیں،مٹی کی تختیوں یا دیگر اشیاءکا استعمال معدوم ہوتا گیا۔دستی کتب کے بعد مشینی پرنٹنگ سے نہ صرف کتب کی فراوانی ہوئی بلکہ علم کی اشاعت عام کے ساتھ ساتھ ارزانی بھی ہوئی۔علم دوست احباب میں کتاب بینی کا شوق جہاں جہالت سے باہر نکالنے کا سبب بنا وہیں عزت و اکرام اور جاہ و ثروت کا نشان بھی قرار پایا۔
 کافی عرصہ پہلے مختار مسعود مرحوم نے اپنی ایک تصنیف میں قحط الرجال کا لفظ استعمال کیا تھا۔میرا ایک دوست اپنے دور طالب علمی میں مختار مسعود مرحوم سے ملنے گیا تو ان سے پوچھا کہ جناب قحط الرجال کا کیا مطلب ہے؟ تو مختار مسعود مرحوم نے کہا جب آپ بڑے ہوں گے تو اس کا مطلب آپ کی سمجھ میں آئے گا۔دراصل مختلف ادوار میں یہ مرحلے آتے رہے ہیں۔جب کچھ اہل نظر لوگوں کو قحط الرجال کا احساس ہوتا رہا ہے۔قحط الرجال کا سلسلہ جاری رہے گا اور آئندہ خدشہ ہے کہ قحط الرجال میں اضافہ ہی ہو گا کمی نہیں۔بہرحال دنیا امید پر قائم ہے۔ہمیں بہتری کی امید رکھنا چاہیے۔کیونکہ غالب نے کہا تھا؛
اک مدت چاہیے آہ کو اثر ہونے تک 
  زیر نظر مضمون کا موضوع قحط القاری ہے۔قاری کا لفظ ہمارے ہاں عموما " قرآن پاک کے قاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ قاری پڑھنے والے یا قرآت کرنے والے کو کہتے ہیں۔پچھلی صدی کے اوائل میں جب گراموفون اور پھر ریڈیو کا دور آیا تو پڑھنے کی بجائے سننے کے دور کا آغاز ہوا۔ٹیلیویژن کی آمد کے بعد سننے کے ساتھ دیکھنے کاعنصر بھی شامل ہو گیا۔جب کمپیوٹر اور پھر موبائل اور انٹرنیٹ کا دور آیا تو ایسے لگا کہ ہر شخص کے ہاتھ ایک بابا لگ گیا ہے۔جو جام جم سے بھی کمال کی چیز ہے۔اس بابے کا یہ کمال ہے کہ یہ ہرفن مولا ہے اور اس کے پاس ساری دنیا جہان کی خبریں ہی نہیں ہر سوال کا جواب اور ہر مشکل کا حل موجود ہے۔گویا کہ اس میں ساری دنیا بند ہے۔اور یہ تمام علوم تک رسائی دیتا ہے۔اس میں سننے،دیکھنے،پڑھنے اور کرنے کو سب کچھ موجود ہے۔
ہمارے بچپن میں گلی محلے میں آنہ لائبریری کا چلن تھا۔جہاں ایک آنہ کرایہ پر ایک دن کے لئے ایک ناول یا رسالہ ملتا تھا۔ جسے پڑھ کر واپس کر دیا جاتا تھا۔سکول میں ہم تین دوستوں کا گروپ تھا۔جو آپس میں کتب کا تبادلہ کرکے زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھنے کا شوق پورا کرتے تھے۔جیب خرچ کا معقول حصہ رسائل اور کتب کی خریداری پر صرف ہوتا تھا۔ ہمارے سرہانے،پلنگ کی نواڑ اور گدے کے نیچے سے کتب ہی برآمد ہوتی تھیں۔جو اکثر والد مرحوم کی طرف سے سرزنش کا باعث بنتی تھیں۔کیونکہ نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتب کا دخل ہماری زندگی میں زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔جو والد صاحب کے لئے قابل قبول نہ تھا۔جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا تو ان دنوں جنوں،پریوں،بادشاہوں،شہزادیوں اور شہزادوں کی کہانیوں پر مبنی رسالہ نما کتب عام ملتی تھیں۔بچوں کے رسالوں میں تعلیم و تربیت،بچوں کی دنیا،پھلواری اور کھلونا وغیرہ ہوتے تھے۔ان دنوں ہماری رہائش ایک ہائی سکول کے احاطہ میں ہی تھی۔اس ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر کے دروازے کے باہر دونوں اطراف بڑے بڑے میزوں پر طلبہ کے استفادہ کے لئے کتب اور رسائل رکھے ہوتے تھے۔لائبریری کے انچارج والد صاحب مرحوم کے دوست تھے۔اس لئے مجھے کتب اور رسائل تک خصوصی رسائی حاصل تھی جو پڑھ کر واپس کر دئیے جاتے تھے۔اس دور میں روزنامہ کوہستان کا ہفتہ وار بچوں کا اخبار چھپتا تھا۔جو میں بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔مجھے ہفتہ بھر اس کا انتظار رہتا تھا۔ہمارا اخبار ہاکر گھر سے تھوڑے فاصلہ پر ایک محصول چنگی پر دے کر جاتا تھا۔چونگی محرر اخبار پڑھنے کے بعد ہمارے گھر پہنچا دیتا تھا۔مگر جس دن بچوں کا اخبار آنا ہوتاتھا۔اس دن میں کسی بہانہ سے مسجد کے مولوی صاحب جہاں قرآن مجید پڑھنے جاتا تھا چھٹی لے کر صبح ہی صبح محصول چونگی پر پہنچ کر اخبار کا انتظار کرتا اور جب اخبار آتا تو خوشی اور بے تابی سے وہیں بچوں کا اخبار پڑھنا شروع کر دیتا۔جب چونگی محرر اخبار پڑھ لیتا تو پھر گھر واپسی ہوتی۔مگر راستہ بھر چلتے ہوئے اخبار کی پڑھائی جاری رہتی۔ستمبر 1963ء میں روزنامہ مشرق کا اجراءہوا تو پہلے دن سے ہی وہ ہمارے گھر آنا شروع ہو گیا۔روز نامہ مشرق کے ساتھ ہفتہ میں ایک بار "بچوں کا مشرق" بھی شائع ہوتا تھا۔جس میں میرے لئے کافی دلچسپی کا سامان موجود ہوتا تھا۔اس میں بچوں کے لیے قسط وار کہانیاں بھی شائع ہوتی تھیں۔جن میں غالبا" ایک کہانی کا نام پہاڑ کا بیٹا تھا۔میں نے بچوں کے اخبارات کو ایک عرصے تک اپنی چھوٹی سی لائبریری میں سنبھالے رکھا۔بچو6کے ہفتہ وار اخبار کے آنے کا انتظار اور اسے پانےکی خوشی کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔کتا ب بینی کا شوق عمر کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا۔جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تو ہمارے سکول میں ہر ماہ ہر ایک طالب علم کو ایک کتاب جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ہماری کلاس میں تریسٹھ طالب علم تھے۔مانیٹر ہونے کی وجہ سے طلبہ کی تعداد کے مطابق تریسٹھ کتب طلبہ کو دینے کے لئے میرے سپرد کر دی جاتی تھیں۔جن کی ایک ماہ بعد واپسی میری ذمہ داری تھی۔کلاس میں کچھ طلبہ ایسے تھے جو سرے سے کتاب لیتے ہی نہیں تھے اور کچھ چند دن کتاب رکھ کر پڑھے بغیر ہی واپس کر دیتے تھے۔اس طرح باقی تمام کتب کی گٹھڑی بنا کر میں اپنے گھر لے جاتا اور کتابیں پڑھنے کا شوق پورا کرتا،فسانہ آزاد،الف لیلٰی،لاہور سمیت نقوش کے کئی نمبر،مولانا محمد حسین آزاد کی آب حیات،مولانا ابوالکلام آزاد کی غبار خاطر،نسیم حجازی،رئیس احمد جعفری،سعید احمد،رضیہ بٹ،میری لائبریری،انگریزی کتب کے تراجم،ہیرالڈلیم،ڈاکٹر طہ حسین،حسنین ہیکل،ڈیل کارنیگی، مولانا مودودی،چوہدری افضل حق،میری لائبریری،مکتبہ جدید،مکتبہ فرینکلن سمیت بے شمار مختلف نوع اور مختلف مصنفین کی سینکڑوں کتب میں میٹرک تک پڑھ چکا تھا۔جن میں ممنوعات بھی شامل تھیں۔کتب کی خریداری کرنے سے میری ایک چھوٹی سی لائبریری بن گئی تھی۔(جو آج ماشاءاللہ ہزاروں کتب پر اس فکر کے ساتھ مشتمل ہے کہ میرے بعد اس کا کیا بنے گا؟)زندگی کا یہ پہلا عشق جو کتاب کے ساتھی تھے ہوا تھا آج بھی قائم ہے۔میں یہ تسلیم کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا کہ میں نے زندگی میں بہت سے مقدمے چند کتب کے تحفہ کے عوض لڑے۔آج میری خریداری صرف کتاب کی خریداری تک محدود ہے۔
ترقی کا چلن بھی عجیب ہے۔کہ ہماری بہت سی اقدار اور روایات کو ختم کر دیتا ہے۔جدید ذرائع ابلاغ کی آمد نے سب سے پہلے محلہ کی آنہ لائبریری کا خاتمہ کیا۔اب کتب کی دوکانوں سمیت قاری اور کتاب کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔دوسرے شہروں سمیت لاہور کے چند اہم اور قومی شہرت کے حامل اشاعتی ادارے جن میں مال روڈ پر فیروز سنز،کلاسیک،مرزا بک ایجنسی وغیرہ سرکلر روڈ ، اردو بازار اور کشمیری بازار میں کتب فروشی کے بیسیوں ادارے ہیں جن کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔کتابوں کی دوکانوں کی جگہ جوتوں اور کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ کی دوکانیں قائم ہو گئیں۔کاغذ،چھپائی اور اس صنعت سے متعلقہ دیگر لوازمات کی قیمتوں اور اجرتوں میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے کتابوں کی لاگت میں اضافہ ہو گیا ہے۔جس کی وجہ سے کتابوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔آبادی میں اگرچہ کئی گنا اضافہ ہوا ہے مگر قاری کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کتب کی اشاعت میں کئی گنا کمی واقع ہو گئی ہے۔کسی پبلشر یا کتاب سیلر کو کریدیں تو اپنا فشار خون بلند ہو جاتا ہے۔دوسرے ممالک میں چھپنے والی کتب کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہے۔مگر ہمارے ملک میں چھپنے والی کتب کی تعداد ہزار گیارہ سو سے سمٹ کر چند سو تک آگئی ہے۔جو قاری کی کمیابی اور کتاب بینی میں عدم دلچسپی کا باعث ہے۔بہت سے اداروں نےاب اون ڈیمانڈ ڈیجیٹل پرنٹنگ کر کے کتاب مہیا کرنی شروع کردی ہے۔مصنفین کے پاس بے شمار مسودے پڑے ہیں جو نہ چھپنے کے باعث ضائع ہو رہے ہیں۔اب کتاب شائع کرنا ایک عیاشی نظر آتا ہے۔بہت کم پبلشرز ہیں جو اپنے خرچہ پر کتاب چھاپتے ہیں۔ آج پبلشر صرف مشہور اور زیادہ پڑھے جانے والے یا مقتدر اور صاحب الروابت مصنف کی کتاب شائع کرتا ہے۔جس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کو کتاب کی فروخت کا یقین ہوتا ہے۔اس کے علاوہ جس پبلشر کا کتاب کی فروخت کا نظام بہتر ہے وہ مارکیٹ میں کامیاب ہے۔اکثر مصنفین ہمت کرکے اپنے شوق کی تکمیل کے لئے اپنے پلے سے کتاب چھاپ کر اسے اعزازی طور پر تقسیم کرتے ہیں۔مگر اس طرح تقسیم کی گئی کتب میں سے اکثر ملفوف حالت میں ہی فٹ پاتھ پر دوبارہ فروخت کے لئے پہنچ جاتی ہیں۔مفت میں دی گئی کتاب اکثر قاری سے محروم رہتی ہے۔قاری کے فقدان کی وجہ سے بہت سا علم لوگوں تک نہ پہنچنے سے ضائع ہو جاتا ہے۔جو انسانیت کا عظیم نقصان ہے۔آج صورتحال اس مقام تک آ پہنچی ہےکہ گزرے کل کے بہت اچھے اخبارات کی اشاعت صرف سافٹ اشاعت تک محدود رہ گئی ہے۔ اس کی ہارڈکاپی انٹرنیٹ سے نکلوانا پڑتی ہے۔
کتاب بینی کبھی اہل علم کی زندگی کا حصہ اور زندگی سے محبت کا مظہر تھی۔کچھ لوگوں کو کتاب کا شوق وراثت میں ملتا تھا۔تو کچھ لوگوں میں کتاب سے محبت کا شوق ان کے استاد پیدا کرتے تھے۔بیسویں صدی کے خاتمہ تک ہماری زندگی میں کتاب کا کافی عمل دخل رہا۔کتاب کے مطالعہ کی عادت کو سکول میں پروان چڑھایا جاتا تھا۔ہر سکول میں ایک فعال لائبریری ہوتی تھی۔جس کا انچارج ایک علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے استاد کو بنایا جاتا تھا۔جو طلبہ کو لائبریری تک رسائی دیتا تھا آور ان کے لئے کتب بھی تجویز کرتا تھا۔آج سکولوں اور کالجوں کے لئے فنڈز کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔کتاب کے شوق کو دوبارہ پروان چڑھانے اور کتاب کو قاری تک پہنچانے کے لئے اہل علم کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے اور اس سلسلہ میں مثبت عملی اقدامات کرنا چاہیں۔اس سلسلہ میں ریاست بھی اپنی ذمہ داری سرانجام دے۔سکول اور کالج کے اساتذہ اس سلسلہ میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔سکول میں کتاب سے پیدا کیا جانے والا شوق اور عادات دیر پا ہوتی ہیں۔اور ان کا ساتھ ساری عمر رہتا ہے۔اس سلسلہ میں سکولوں میں ایک پیریڈ لائبریری کا مختص کیا جانا ضروری ہے۔اس کے علاوہ اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مضمون سے متعلقہ کتب طلبہ کے پڑھنے کے لیے منتخب کریں اور پھر طلبہ سے اس کتاب کے بارے میں سوالات کر کے ان کے علم کو جانچیں۔بچوں کی سالانہ پراگرس رپورٹ میں اس امر کا باقاعدہ اندراج کیا جائے کہ طالب علم نے کن کن کتب کا مطالعہ کیا ہے۔بیشک آج کا دور ڈیجیٹل کتاب کا ہے مگر اس سے کتاب کی ہارڈ صورت کی افادیت کم نہیں ہوتی۔اگر کسی صبح بیدار ہونے کے بعد ہمیں یہ خبر سننے کو ملے کہ دنیا کا انٹرنیٹ سسٹم کرپٹ ہو کر ختم ہو گیا ہے اور سارا بیک اپ اڑ گیا ہے۔تو ہمارے پاس صرف کتاب ہی باقی رہ جائے گی۔اس لئے کتاب اور اپنے علم کو اس برے وقت سے بچا کر رکھیں۔

مزیدخبریں